کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 145
اس کے بعد بمبئی گئے۔ وہاں ایک اہل حدیث امام مسجد مولوی محمد جعفر سے کسبِ فیض کیا۔ 1325ھ (1907ء) کو دہلی گئے۔ دہلی میں سید میاں نذیر حسین محدث کے مدرسہ (پھاٹک حبش خاں) میں رہائش رکھی۔ لیکن ان کے دہلی جانے سے قبل حضرت میاں صاحب وفات پاچکے تھے۔ اس مدرسے میں میاں صاحب کے پوتے مولانا سید عبدالسلام دہلوی کا درسِ حدیث طلباے علمِ حدیث کے لیے بڑی کشش رکھتا تھا۔ وہاں علامہ سورتی نے حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ پروفیسر محمد سرور جامعی مولانا سورتی سے روایت کرتے ہیں کہ ’’ہم تو کل بخدا دہلی کے ارادے سے گھر سے نکل پڑے، زادِ راہ ہمارے پاس صرف اللہ کا نام تھا۔ دہلی پہنچے تو ایک مدرسے میں جگہ مل گئی۔ ان دنوں کتابیں خریدنا ہماری بساط میں نہ تھا۔ ہم یہ کرتے کہ جس کتاب کی ضرورت پڑتی اس کی نقل کر لیتے۔ اس طرح اکثر کتابیں ہمیں زبانی یاد ہوجاتی تھیں۔ اس زمانے میں چاندنی چوک سے نہر بہتی تھی اور ریلوے اسٹیشن کے پاس کی زمین میں سایہ دار درخت کثرت سے تھے۔ ہم سارا سارا دن درختوں کے نیچے سایہ میں گزارتے۔ پڑھنے سے جی اکتاتا تو تیرنے چلے جاتے۔ چنانچہ تیرنے میں اتنی مہارت ہوگئی تھی کہ بھرے دریا میں تیرا کرتے تھے۔‘‘ ان سطور کے راقم کو 1942ء میں گوجراں والا میں مولانا سورتی کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ بڑا سر، بھرا ہوا جسم، کھلے ہاتھ پاؤں، موٹی آنکھیں، سادہ مگر صاف ستھرا لباس۔ حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی کی جامع مسجد چوک نیائیں میں تشریف فرما تھے۔ کئی اہل علم اس مجلس میں موجود تھے جو ان کی خالص علمی گفتگو سے محظوظ ہو رہے تھے۔