کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 131
ضلع مالدہ کے علاوہ اس کے متصلہ اضلاع مرشد آباد اور راج شاہی کے بعض حصے بھی شامل تھے… اس کے بانی مولانا ولایت علی عظیم آبادی کے ایک خلیفہ مولانا عبدالرحمن لکھنوی تھے جو مجاہدین کی جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ اس سلسلے میں جنوبی بنگال کے ضلع مالدہ میں گئے تو وہاں خدمتِ مجاہدین کے لیے حالات سازگار معلوم ہوئے اور اس ضلع کے ایک گاؤں میں سکونت اختیار کر لی۔ شادی بھی وہیں کی اور مدرس کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ گاؤں کے چھوٹے بڑے زمینداروں اور دیگر لوگوں نے ان سے تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ ہنٹر کے بقول وہ انتہائی پُرجوش واعظ تھے اور بہت ہی مؤثر انداز میں لوگوں کو انگریز کے خلاف دعوتِ جہاد دیتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کثیر تعداد میں نوجوان ان کے حلقۂ عقیدت میں شامل ہوگئے۔ وہ لوگوں سے باقاعدہ رقوم وصول کر کے عظیم آباد (پٹنہ) کے مرکز میں بھیجتے، تاکہ یہ رقوم سرحد پار کے مجاہدین کو پہنچائی جائیں۔ جو لوگ مولانا عبدالرحمن لکھنوی کے ماتحت بنگال کے مختلف مقامات سے رقوم فراہم کرنے پر متعین تھے، ان میں ایک شخص رفیق منڈل تھے۔ کئی سال وہ یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ 1853ء میں حکومت کو رفیق منڈل کے متعلق اعانتِ مجاہدین کا شبہ ہوا۔ ان کی تلاشی لی گئی تو کچھ ایسے خطوط برآمد ہوئے، جن سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان کا تعلق مجاہدین سے ہے۔ چنانچہ انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہ رہا ہوئے تو تمام جماعتی کاربار جو وہ خود انجام دیتے تھے، اپنے بیٹے مولوی امیرالدین کے سپرد کردیا۔ مولوی امیر الدین انتہائی سرگرم آدمی تھے اور ان کا حلقۂ اثر بہت وسیع تھا۔ دریاے گنگا کے دونوں کناروں اور اس کے جزیروں میں آباد مسلمانوں اور اضلاعِ مالدہ، مرشد آباد اور راج شاہی میں وہ نہایت اثرورسوخ کے مالک تھے۔ ان کے