کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 130
اور ان کی آہ وفریاد تھی۔ حکومت کا مجرم تو احمد اللہ تھا، بے گناہ بال بچوں کا کیا قصور تھا۔ ہماری زندگی کا سرمایہ موت کا سامان بن گیا… ہماری عید محرم کا چاند ہوگئی۔ میں زندہ تھا، لیکن مُردوں کی سی حالت میں۔ میرے لیے زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوگئی۔ مثنوی لکھنے والے حکیم عبدالحمید طبابت کرتے تھے اور ان کا اچھا خاصا دوا خانہ تھا۔وہ بھی حکومت نے ضبط کر لیا۔ یعنی گزر بسر کے لیے کوئی چیز ان کے پاس باقی نہ رہنے دی۔ کتابیں اور کپڑے وغیرہ کوئی شے ان کے قبضے میں نہ تھی۔ کتابوں کی ضبطی سے انھیں بالخصوص بہت تکلیف پہنچی، فرماتے ہیں۔ کتبِ ملتِ مسلماناں رفت در دستِ حرف ناخواناں یعنی مسلمانوں کی دینی ومذہبی کتابیں اَن پڑھ لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئیں۔ مولانا احمد اللہ کو کالے پانی لے جانے کے لیے کب عظیم آباد (پٹنہ) سے روانہ کیاگیا، اس کی صحیح تاریخ کا علم نہیں ہوسکا۔ البتہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ مولانا یحییٰ علی، مولانا عبدالرحیم، مولانا محمد جعفر تھانیسری اور میاں عبدالغفار سے بہت پہلے 10۔جون 1865ء کو وہاں پہنچ گئے تھے۔ 3۔ مالدہ کا مقدمۂ بغاوت ہندوستان کے مختلف علاقوں اور شہروں میں مجاہدین کے جو مراکز قائم تھے، ان میں ایک مرکز مالدہ تھا۔ یہ مرکز صوبہ بنگال میں تھا۔ ’’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ کا انگریز مصنف ڈاکٹر ہنٹر 1870ء کے واقعات بیان کرتے ہوئے (کتاب کے صفحہ 119پر) لکھتا ہے کہ وہابیوں کی تحریک جہاد کا یہ مرکز ’’تقربیاً تیس سال‘‘ پہلے قائم ہوا تھا۔ اس حساب سے اس مرکز کی بنیاد 1840ء کے لگ بھگ پڑی۔ اس مرکز میں