کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 129
سوال اٹھایا تو حکومت کے ایک وزیر نے اس منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی جو رمضان المبارک 1281ھ (فروری 1865ء) کو انگریزوں نے ضبط کی تھی، تفصیل بتائی ۔ یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ جاداد منقولہ میں ان تینوں حضرات (مولانا عبدالرحیم، مولانا یحییٰ علی اور مولانا احمد اللہ) کی کتابیں، فرنیچر، یکے، گھوڑے، پالکیاں، زیور وغیرہ بیش قیمت چیزیں شامل تھیں، جو نہایت ہی تھوڑی رقم میں نیلام ہوئیں۔ اس کے بعد ان کے مکانات منہدم کرادیے گئے اور ان کے محلہ صادق پور کا احاطہ عظیم آباد (پٹنہ) کی میونسپل کمیٹی کو دے دیا گیا۔ اس میں وہ جگہ بھی شامل تھی جسے ’’قافلہ‘‘ کہا جاتا تھا، اور اسے’’قافلہ‘‘ اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہاں مجاہدین اور اس جماعت کے کارکن قیام کرتے تھے۔ اس تمام جگہ پر پٹنہ میونسپل کمیٹی کی عمارت تعمیر ہوئی۔ عورتوں اور بچوں کی حالتِ زار مولانا احمد اللہ کے اہل وعیال کو عید کے دن ان کے گھروں سے نکالا گیا تھا۔ تمام عورتیں اور بچے انتہائی پریشانی کے عالم میں تھے۔ نہ رہنے کے لیے مکان اور نہ استعمال کے لیے کوئی سامان… ایک خوش حال گھرانا نہایت بے چارگی اور بے بسی کا شکار ہوگیا تھا۔ مولانا احمد اللہ کے بیٹے حکیم عبدالحمید نے جو بہت اچھے عالم اور شاعر تھے، ’’مثنوی شہر آشوب‘‘ میں تفصیل سے اس کا ذکر کیا ہے۔ مثنوی کے چند اشعار کا ترجمہ یہ ہے: جب عید کی رات ختم ہوئی اور ہمارے اہل وعیال نے صبح کی تو سب کو مکان سے نکال دیا گیا۔ تمام مال ومتاع ضبط اور برباد ہوا۔ نقدی، غلہ، سامان اور زراعت ہر شے ختم ہوگئی۔ ہمارے لیے آہ کرنا بھی سخت جرم تھا اور تمام سامان میں سے سُوئی تک اٹھانے کی اجازت نہ تھی۔ میں اکیلا نہ تھا، میرے ساتھ بہت سے لوگ تھے۔ بچے، عورتیں،