کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 124
وقت ہوتا ملزم تیمم کر کے اور بیٹھے ہوئے اشاروں سے نماز پڑھ لیتے۔ مقدمے کی سماعت جتنے دن ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں ہوئی، تمام ملزم الگ الگ پھانسیوں کی کوٹھڑیوں میں بند رہے۔ جب مقدمہ سیشن سپرد ہوا توسب کو حوالات میں اکٹھا کر دیا گیا۔ اب ماحول قدرے ساز گار تھا اور تمام دوست اکٹھے رہتے تھے، اس لیے اذیتوں کا احساس تقریباً ختم ہوگیا تھا۔ ان دنوں مولانا محمد جعفر تھانیسری فارسی کا اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؎ پائے در زنجیر پیش دوستاں بہ کہ بہ بیگا نگاں دربوستاں یعنی دوستوں کے ساتھ اگر پاؤں میں زنجیربھی ہو تو وہ بیگانوں کی رفاقت میں باغ میں رہنے سے بہتر ہے۔ مولانا یحییٰ علی تکلیفوں کے ان دنوں میں عام طور پر یہ رُباعی پڑھتے اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے۔ لست أبالي حین أقتل مسلما علی أي شق کان للّٰہ مصرعي وذلک في ذات الإلہ وإن یشأ یبارک علی أوصال شلو ممزع یعنی جب میں مسلمان مارا جاؤں تو مجھے کچھ پروا نہیں کہ اللہ کی طرف میرا لوٹنا، اگرچہ کسی بھی طرح سے ہو۔ یہ سب اللہ کی راہ میں ہے، وہ چاہے توبوسیدہ ہڈیوں اور تمام اعضاے جسم میں برکت اور بالیدگی پیدا کردے۔