کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 107
جنھوں نے ’’سیرت ثنائی‘‘ کے نام سے مولانا امرتسری کے حالات لکھے۔ انھوں نے مولاناکے مناظرے کی حسب ذیل دس خصوصیات تحریر فرمائی ہیں۔ انھیں خود بھی ان کے بعض مناظروں میں شرکت کے مواقع ملے۔ ان خصوصیات پر ہر مناظر کو نہ صرف غور کرنا چاہیے بلکہ عمل کرنا چاہیے۔ 1۔مولانا امرتسری فریق ثانی کی کبھی تحقیر یا تذلیل نہ کرتے بلکہ اس کی عزت کرتے اور بہ کشادہ پیشانی پیش آتے۔ 2۔اعتراض یا جواب میں الفاظ ہمیشہ مختصر ہوتے مگر پُر معنی اور پُر مغز ہوتے۔ 3۔دقیق سے دقیق مضمون کو بھی عام فہم طریق پر بیان کرنے اور اشعار سے اس میں رنگینی پیدا کرنے کاانھیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ 4۔حاضر جوابی تو گویا ان پر ختم تھی۔ ان جیسا حاضر جواب کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔ 5۔کسی مناظرے میں ان پر کبھی گھبراہٹ طاری نہیں ہوئی، بلکہ مناظرہ نہایت طمانیت سے ہنس ہنس کر کرتے۔ 6۔مناظرے میں ان کا انداز ہمیشہ عالمانہ رہا۔ عامیانہ انداز کبھی اختیار نہیں فرمایا۔ 7۔فریق ثانی کو مبحث سے کبھی باہر نہ جانے دیتے۔اگر باہر جاتا تو گھیر گھار کر اصل مبحث پر لے آتے اور یہ فن مناظرہ کا کمال ہے۔ 8۔مناظرے میں اصولِ مناظرہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے اور دیگر علوم و فنون کی طرح مناظرہ علمِ مناظرہ کے اصول پر کیا کرتے تھے۔ 9۔شرائطِ مناظرہ میں ہمیشہ فراخ دلی سے کام لیا۔ بارہا فریق ثانی کی ناجائز شرائط کو بھی قبول کر لیا کرتے تاکہ اس بہانے سے وہ راہِ فرار اختیار نہ کر لے۔ 10۔میدان مناظرہ میں کبھی کوئی الزام یا جواب بلا حوالہ یاخلافِ حوالہ پیش نہیں کیا، بلکہ جو بات کی ہمیشہ دلائل سے کی۔