کتاب: برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات - صفحہ 103
بیل گاڑیوں میں یا اونٹوں اور گھوڑوں پر سفر کرتے تھے۔ مولانا محمد حسین بٹالوی کی ہمت اور ان کا جذبۂ خدمت دین اور داعیہ محبت رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) ملاحظہ ہو کہ انھوں نے دور دراز مقامات میں خود جا کر یا اپنے نمائندے بھیج کر علماے کرام سے اس فتواے تکفیر پر دستخط کرواے اور ان کی مہریں لگوائیں۔ ظاہر ہے اس بھاگ دوڑ میں مولانا بٹالوی نے بہت رقم خرچ کی ہوگی۔ فتواے تکفیر کی اشاعت پہلی دفعہ یہ فتویٰ مولانا بٹالوی کی زندگی میں شائع ہوا تھا۔ اس سے تقریباً سو سال بعد یہ فتویٰ ’’پاک وہند کے علماے اسلام کا اولیں متفقہ فتویٰ‘‘ کے نام سے حضرت الاستاذ مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ نے نومبر 1986ء میں دارالدعوۃ السلفیہ لاہور کی طرف سے شائع کیا جو بڑے سائز کے 188صفحات پر مشتمل ہے۔ اس پر برصغیر کے مختلف مقامات کے دو سو علماے کرام کے دستخط ہیں جو اپنے اپنے علاقے میں بے حد شہرت رکھتے تھے۔ اس طرح مرزا غلام احمد قادیانی کی تکفیر کے متعلق یہ فتویٰ سوا سو سال قبل کے علماے برصغیر کی ایک معتبر تریں تاریخی دستاویز ہے۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس وقت کون کون علماے عظام کہاں کہاں اقامت فرما تھے۔ اس فتوے کو خوب صورت طریقے سے کتابی سائز پر دوبارہ شائع کرنا چاہیے اور اس کا مختصر نام ’’اولیں فتواے تکفیر‘‘ ہونا چاہیے۔ اس پر مقدمہ لکھنا چاہیے، جس میں مرزائیت سے متعلق اہل حدیث کی اولیات کا تفصیل سے ذکر کیا جائے۔ کوشش کی جائے کہ فتوے پر دستخط کرنے اور مہریں لگانے والے علماے کرام کا مختصر الفاظ میں تعارف بھی کرایا جائے۔ فتواے تکفیر کے علاوہ مولانا بٹالوی نے براہِ راست مرزا صاحب سے مباحثہ کیا،