کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 95
دُنیائے اسلام میں زیر خاکستر آتش جوّالہ نظر آتی ہے۔ عرب اور ایران کے سواہر جگہ بیداری اور موجودہ سیاسی شطرنج کی چالوں سے پوری آگاہی ہے تونس کے مسلمان اخباروں نےفرانس کے سوشیالسٹ تحریک میں اپنی شرکت کا علانیہ اعلان کردیا، مصر اپنی آزادی کا دلیری سے مطالبہ کررہاہے، ہندوستان امیدو ں کا مرکز ہے۔ برلن سے ایک فارسی اخبار کا وہ نکلتا ہے۔ اس کی ایک کاپی پروفیسر براؤن نے کیمبرج میں مجھے دی، پڑھ کر افسوس ہواکہ ایران بھی اس منزل میں ہے جہاں ہندوستان ۵۰برس پہلے تھا۔ یورپ کے تمدن سے اس درجہ مرعوب ومتاثر ہے کہ بیچارے سیّدا حمد خان کی اس کے آگے ہستی نہیں۔ ایران کی آزادی کی تدبیر اس کے نزدیک صرف یہ ہے کہ زبان کے علاوہ ہر چیز میں ہم کو یورپین ہوجاناچاہیے۔ “ اس کے خاص الفاظ یہ ہے ”ایران یابد ظاہراً وباطناً وجسماًوروحاً فرنگی مآب شودوبس“ سرسیّد نے کہاتھا کہ ” ہم کو مذہب کے سوا ہر چیز یورپین ہوجاناچاہیے۔ “ معلوم ہوا ”مرغ نو گرفتار “کی صدا ہمیشہ ایک ہی طرح کی ہوتی ہے۔ اڈنبرا میں ایک اسلامک سوسائٹی ہے جس میں ہر ملک کے مسلمان طلبہ جو وہاں پڑھتے ہیں شریک ہیں۔ ان کی طرف سے ۲۹ اپریل کو جلسۂ دعوت تھا۔ ۲۵۔ ۳۰ مصری طالب علم بھی تھے۔ محمد علی وسیّد حسین نے تو انگریزی میں لیکن میں نے ان مصریوں کے اصرار سے عربی میں تقریر کی۔ ایک بات پیرس میں وفد مصری سے پوچھنی رہ گئی تھی کہ اگر انگلینڈ نے ان کی آزادی کو تسلیم نہ کیا تو وہ کیا طریقہ اختیار کریں گے۔ میں نے ان طالب علموں سے یہ سوال پوچھا۔ ا نہوں نے جواب دیاکہ ہم مقاطعہ ( بائیکاٹ) کریں گے۔ یہ سن کرمجھے خوشی ہوئی کہ یہ وہی ہتھیار ہے جس کوہندوستان کے غریب مسلمان اُٹھانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔