کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 94
ہیں اور بس۔ “ اگلے ہفتے میں معارف کے لیے ایک اور چھوٹا سامضمون بھیجوں گا۔ ۳۲؀ لندن ۶ مئی ۱۹۲۰ء ع، م عم محترم، السلام علیکم پلاؤ مبارک ! یہاں تو اُبلا کچّا اور مچھلی بس یہی دو [1]چیزیں مدار زندگی ہیں، آپ کا سفر صرف بانکی پور تک محدود رہا۔ بکسر اور اعظم گڈھ آخر محروم ہی رہا۔ بھائی داؤد صاحب کا ”مرض [2]مبارک“ تو اب سالانہ عرس ہوگیا۔ میری زاہدانہ اور نیک سرشت زندگی کی سند آپ کوہمدم میں ملی ہوگی، خدا ہمارے دوست احسان قدوائی کا بھلا کرے کہ انہوں نے میری نسبت چند فقرے لکھ کر کم از کم آپ کو تو مطمئن کردیا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کی بداخلاقی سے متاثر نہ ہونا اولیائے کرام کا کام ہے۔ اور مجھے فخر ہے کہ میں اس حیثیت سے اس طائفہ عالیہ میں داخل ہوں۔ لائڈ جارج کا جواب اور قسطنطنیہ کی حکومت کا طرزِ عمل دیکھ کر مایوسی کیوں ہوئی ؟ اس سے تو اور زیادہ جوش پیدا ہونا چاہیے تھا۔ قسطنطنیہ کی حکومت ٹرکی نہیں ہے۔ ٹرکی آج کل اناطولیا میں ہے۔ سلطان کی حیثیت اسیر باسفورس سے زیادہ نہیں، اب مایوسی کی بجائے تازہ جوش وغیرت سے ہم کو اپنا کام انجام دینا چاہیے، اگر یہ مصالحانہ جنگ ہار بھی گئے تب بھی مایوس نہ ہونا چاہیے، ہم کو
[1] احسان الرحمٰن صاحب قدوائی بیرسٹر لکھنؤ، جولندن میں تھے واپس جاکر ”ہمدم“میں وفد کے ممبروں کی نسبت ایک دلچسپ مضمون لکھاتھا۱۲۔ [2] یعنی سالانہ خارشت