کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 93
اس ہتھیار کے سامنے سپرڈال دیتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ کہاں تک ان واقعات کی اصلیت ہے ؟
کیمبرج دیکھا، آپ کے معارف کے صفحات میں بھی اور انگلینڈ کی سر زمین پر بھی، پروفیسر براؤن سے ملاقات ہوئی۔ بڑی مہربانی سے ملے۔ برابر مجھ سے ازراہِ تلطف باتیں کرتے رہے۔ فارسی زبان میں گفتگو رہی۔ ان کو ایران سے بے حد محبت ہے۔ تاریخ جہاں کشا کی دوجلدیں مجھے ہدیہ دیں اور یادگاری دستخط بھی اس پر ثبت کئے۔ ترکوں کی نسبت ان کا خیال تھا کہ یورپ کے اہل سیاست نے نوجوان ترکوں کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ تونس اور الجیریا کے مسلمانوں کی نسبت کہتے تھے کہ فرانس ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتا۔ ا یک فارسی کا اخبار ہدیۃ ً۔ ا س کا نام ” کا وہ “ ہے درغشِ کا دیانی تو آپ کو یاد ہی ہوگا۔ اس سےوہ لیا گیا ہے۔ اس شخص کا نام تھا جس نے ضحاک کی ظالمانہ سلطنت کا ایران میں خاتمہ کردیا تھا۔ یہ اخبار برلن سے نکلتا ہے۔ سید حسن تقی زادہ ایک ایرانی اس کا ایڈیٹر ہے، زمانۂ جنگ میں یہ سیاسی تھا، اب علمی وادبی واجتماعی ہوگیاہے تاہم سیاست کی چاشنی رکھتا ہے، اس کی سیاسی رائیں مجھے پسند نہ آئیں۔ تمدن یورپ کی نسبت اس کی رائے بالکل وہی ہے جو آج سے ۵۰ برس پہلے ہندوستان کی تھی کہ صرف اس تمدن کو اختیار کرلینا ہی ہماری تمام بیماریوں کا علاج ہے۔ چنانچہ ایک مضمون میں ارشاد ہے۔ ”فرنگی مآب شوید وبس۔ “
پرسوں ہمارا قافلہ پھر روبار انگلستان کو عبور کرکے پیرس جائے گا، ترکی ڈیلی گیٹ آج کل میں پہنچنے والے ہیں۔ مسٹر مانٹیگو نے ۲۶ اپریل کو وفد سے ملاقات کی تھی، کل پھر خاص محمد علی صاحب کو بلاکر دیر تک باتیں کیں، جن کی تفصیل کی اجازت نہیں، میری ذاتی رائے تو مانٹیگو صاحب کی نسبت یہ ہوتی ہے کہ وہ ”باتیں بیٹھی کرتے