کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 92
اُٹھ کر کہا”برٹش حکام ہندوستان کے ساتھ کیابھلائی کرسکتے ہیں جب کہ خود انگلینڈ کے مزدور پیشہ جماعت کے ساتھ وہ نہیں کرسکتے۔ “
اڈنبرا یونیورسٹی دیکھی، شہراڈنبرا نہایت خوبصورت ہے۔ مجھے پسندآیا، یہاں کے مسلمان طلبہ نے جس میں ہندوستان اور مصر کے مسلمان طلبہ شریک تھے اپنی اسلامک سوسائٹی کی طرف سے ایک ہوٹل میں جلسۂ دعوت دیا، اس میں ۲۰، ۲۵ مصری تھے، محمد علی وسید حسین نے انگریزی میں اور میں نےمصریوں کے اصرار سے عربی میں تقریر کی۔ انہوں نے بھی عربی ہی میں جواب دیا۔ ا ور مسئلہ خلافت وجزیرۃ العرب کی بالکلّیہ تائید کی، شام کوانڈین سوسائٹی کی طرف سے جلسہ ہوا اس میں محمد علی وسیدحسین صاحب نے تقریر کیں۔
اڈنبرا سے۳۰ کومانچسٹر گئے، وہاں بھی شام کو جلسہ تھا، یہ مقامی تجارتی منڈی ہے۔ ا ور اس لیے یہاں یونانی و ارمنی لوگوں کی خاصی تعداد ہے۔ ہارنیمن صاحب صدر تھے۔ مسز نائیڈوبھی آگئی تھیں۔ سب نے تقریریں کیں۔ مجھے بھی حاضرین کے اصرار سے زبردستی بولنا پڑا۔ تقریروں ہی کے اندرآرمینیوں نے چھیڑ چھاڑ شروع کردی اور اس کے بعد آخر جلسہ میں جب سوالات پوچھنے کی نوبت آئی تو اس بدتمیزی اور جہالت اور اظہار غیظ وغضب سے کام لیا کہ حاضرین پر ان کا بہت بُرا اثر پڑا۔ لوگ ان کے نکالنے کو اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بمشکل روکا گیا۔ ہم لوگوں نے یہاں ایک عجیب ہتھیار ان کے لیے ایجاد کیا ہے۔ یعنی قتل عام کی ان ساری داستانوں کی جوترکوں کی طرف منسوب کی جاتی ہیں تحقیقات کے لیے ایک بین الاقوامی کمیشن کا تقرر جس میں خلافت کانفرنس کے نمائندے شریک ہوں۔ چونکہ ان داستانوں کے اکثر ابواب ساختہ وپرداختہ ہیں۔ ا س لیے اس اعلان کوقبول کرنے کے لئے ان میں سے کوئی آمادہ نہیں ”یہاں کے تمام اخبارات بلکہ خودلائڈ جارج اور اڈنبرا مانچسٹر میں دیکھا کہ خود ارمنی بھی