کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 91
کرتےہیں، ملکی حقوق کے بھی حامی ہیں۔ ا ن کے مقابلے میں نوجوان اسٹوری سچے اینگلو انڈین ہیں۔ لیجیے ایک ہفتہ کے بعد مجھے اپنے گذشتہ خط کے ایک نظریہ میں تھوڑی ترمیم کرنی پڑی، اڈنبرامیں ہماری طرف سے ۲۹ اپریل کو جلسہ تھا، اس کا صدور وہیں کا ایک شخص تھا جولیبر پارٹی کا وہاں ممبر ہے بیکسٹن نام ہے۔ جلسہ میں ابھی لوگ نہیں آئے تھے۔ میں نے اس سے باتیں شروع کیں کہ آپ اسکاٹ لینڈ کےلیے ہوم رول کی تحریک کو کیسا سمجھتے ہیں۔ اس نے کہا میں تو انٹرمنیشنلسٹ ہوں۔ میں اپنے نقطۂ نظر سے اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں ہر اس واقعہ کامخالف ہوں۔ جوقوموں کے درمیان اختلاف وناگواری پیدا کرے۔ تقریر صدارت میں اس نے کہا کہ ”میں نہ مسلمان ہوں نہ عیسائی“ نہ میں میٹریلسٹ ہوں، میں اس دَور ِامن کا متمنی ہوں جس کا خواب ٹیگورہم کو دکھاتا ہے، “ محمد علی وسیّد حسین کی تقریروں کےبعد حاضرین نے مختلف سوالات شروع کیے۔ ایک آرمینی بھی تھا۔ ا س نے علی الاعلان اٹھ کر کہا کہ مجھ سے آرمینیوں کے قتلِ عام کا واقعہ پوچھو، میں خود وہاں موجود تھا، حالانکہ وہ پانچ برس سے اڈنبرا سے باہر بھی نہیں نکلا ہے، یہیں کہیں پڑھتا ہے۔ اس سے آپ آرمینیوں کی دروغ بانی کا اندازہ کرسکتے ہیں، بہرحال چونکہ ہمارا تعلق ہندوستان سے ہے، اس مناسبت سے ہندوستان کے متعلق سوالات شروع ہوگئے۔ ایک صاحب نےپوچھا ہندوستان میں فی صدی کتنی تعلیم ہے ؟محمدعلی نے جواب دیاشاید نوفی صدی۔ سائل نےکہا جس ملک میں ۹ فیصدی تعلیم ہو وہ ہوم رُول کا مستحق کب ہے؟ محمدعلی صاحب نے نہایت ظریفانہ جواب دیا کہ یہ عجیب منطق ہے۔ ’’جب ہم ہندوستانی تعلیم مانگتے ہیں ( گوکھلے کےجبری تعلیمی بِل کی طرف اشارہ کیا) تو کہاجاتاہے یہ منظورنہیں۔ جب ہوم رول مانگتے ہیں تو کہا جاتاہے تم میں تعلیم نہیں۔ “اس پر بے ساختہ مجلس میں قہقہہ ہوا۔ ایک ورکر ( مزدور پیشہ) نے