کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 90
صلاحیت موجود ہے۔ کل ۷مئی کو پیرس کی طرف روانگی ہے۔ ۳۱؀ لندن، البرٹ ہال مینشن، ۵مئی ۱۹۲۰ء مکرم تسلیم نیاز! میں نے پچھلی ڈاک میں آپ کے نام انڈیا آفس لائبریری کی اردو کتابوں پر ایک مضمون لکھ کر بھیجا ہے۔ پہنچا ہوگا، اس میں قلمی کتابوں کا تذکرہ نہیں ہے کیونکہ اس کی کوئی فہرست مرتب نہیں تاہم میں نے پروفیسر اسٹوری ( جوپہلے علی گڑھ میں تھے اب وہ یہاں اسسٹنٹ لائبریرین ہیں ) سے کہہ دیا تھا کہ پروفیسر بلو مہارٹ سے جو ان قلمی اُردو کتابوں کے انچارج ہیں ملنا چاہتا ہوں۔ پروفیسر اسٹوری کا خط مانچسٹر میں ملا کہ وہ ۴مئی کوملیں گے، اتفاق سے واپسی جلدی ہوئی اور ۴کوحسب وعدہ انڈیا آفس جاکر بلومہارٹ صاحب سے ملاقات ہوئی، دیکھ کر سخت تعجب ہوا، بہت بوڑھے آدمی ۸۰سے کم عمرنہ ہوگی۔ بالکل سن سفید اور پیری سے خمیدہ پشت ہیں، ۱۸۷۰ءمیں ہندوستان گئےتھے۔ اُردو عمدہ، فصیح اور مخارج کے ساتھ بولتے ہیں، برٹش میوزیم میں بھی اردو کا صیغہ ان ہی کے متعلق ہے، بہرحال انہوں نے انڈیا آفس کی اُردو قلمی کتابوں کی فہرست کا مسودہ اپنے ہاتھ کالکھا ہوامجھے دیا، یہ فہرست بھی بےترتیب ہے۔ کوئی خاص ترتیب پیشِ نظر رکھ کر نہیں لکھی گئی تھی، اس سے کسی چیز کا نکالنا مشکل نظر آیا، بہرحال اتنا معلوم ہوا کہ اُردو کی کل ۳۰۰ قلمی کتابیں یہاں ہیں ‘ یہ زیادہ تر دلیّ سے ہاتھ آئی ہیں، سعادت علی خاں رنگین کی دس بارہ تصنیفات ہیں۔ ہندی کی قلمی کتابیں۱۰۰ہیں، ہندی بھی پروفیسر بلومہارٹ ہی سےمتعلق ہے۔ پروفیسر موصوف اُردو کے بہت مداح ہیں۔ اردو کوہندوستان میں ذریعۂ تعلیم بنانے کے مؤید ہیں۔ ہندی کے مقابلے میں اُردو کوہندوستان میں زیادہ پھیلنے والی قوت تسلیم