کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 89
ہندوستان میں بیٹھ کر یورپ کی جمہوریت اورآزادی وحرّیت کے بڑے قصے سُنے جاتے ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ عملاً یہاں بھی ارباب حکومت اسی درجہ مستبدہیں جس درجہ مشرق میں۔ عوام کوصرف یہ اختیار ہے کہ منتخب کریں۔ ممبروں کو اختیار ہے کہ وزراء کو منتخب کریں۔ اس کے بعد نہ تو عملاً عوام کو ممبروں پر اور نہ ممبروں کو وزراء پر کوئی اختیار ہے۔ فرانس جوری پبلک کہلاتاہے وہاں کی حالت انگلینڈسے بھی بدتر ہے۔ عوام کو حکومت کی پالیسی میں ایک ذرّہ دخل نہیں، اب سمجھ میں آیا کہ یہاں سوشلزم کے برگ وبار پیدا کرنے کے کیااسباب ہیں۔ یہاں کے امیر و غریب طبقہ میں معاشرۃً اس درجہ بُعدہے، جس قدر خدااور بندہ ہیں ۲۲ اپریل کو لندن میں لیبر پارٹی کی طرف سے ہمارا جلسہ تھا۔ اس میں اتفاقاً لفظ ”رعایا“ اور ”بادشاہ“ پر ایک دلچسپ لطیفہ کسی مُقرر نے کہا۔ ایک مزدور پیشہ نے کہا ’’ہمارا بادشاہ کوئی نہیں، اگر ہے تو لینن(بولشزم کالیڈر) ہے۔‘‘ ڈنبرا میں ۲۹ اپریل کو ہمارا جلسہ تھا، تقریروں کے آخر میں یہاں دستورہے کہ حاضرین رفع شکوک کے سوالات کرتے ہیں۔ ان سوالات میں سے بعض ہندوستان کے تعلق سے ہندوستان کے متعلق کئے گئے۔ ایک مزدور نے اٹھ کر کہاکہ ”موجودہ برٹش گورنمنٹ ہندوستان کے ساتھ کیابھلائی کرسکتی ہے جب کہ خودانگلینڈ میں مزدور طبقہ کے ساتھ وہ کچھ نہیں کرتی۔ “ یکم مئی کو لندن میں مزدور پیشہ لوگوں کا ایک بہت بڑاجلوس نکلا۔ سب کے ہاتھوں میں سُرخ پُھول، گلے میں سُرخ ٹائی جیب میں سرخ رومال اور کئی سوجھنڈے تھے۔ ہائڈ پارک جاکر جویہاں کا سب سے بڑ اباغ ہے جلوس ختم ہوا۔ بارہ پلیٹ فارم مقرروں کے لیے بنائے گئے تھے، میں خودتوشریک نہ تھالیکن میرے ایک دوست کہتےتھے کہ ان میں کوئی حقیقی جوش نہ تھا اور بربنائے معلومات میری ذاتی رائے یہ ہے کہ انگریزوں میں نیشنل اسپرٹ اس قدر ہے کہ انٹرنیشنل احساس ان میں بہت مشکل سے پیدا ہوسکتاہے۔ ا لبتہ فرانس کی آب وہوا میں اس کے قبول کی پوری