کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 86
گزرا، جب زیادہ تقاضا کیاگیاتو فرمایا کہ ۲۴ کو نقل ملے گی۔ جب ہندوستان میں بیان شائع ہوچکے گا۔ چنانچہ جب وہ اپنے مطلب کے مطابق ہندوستان بیان بھیج چکے تواس کی کاپی عنایت کی، دوسرے دن ڈاک کے ذریعہ سے ہم نے پورا مفصل بیان شوکت علی صاحب کے نام بھیج دیاجوغالبا ہندوستان ۱۵اپریل تک پہنچا ہوگا۔ پُورے بیان کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ وفد کا کیابیان تھا۔ ا ور کس طرح اس کو بگاڑا گیا؟ مَیں سمجھتا ہوں کہ ہر ہفتے ہمارے یہاں سے جوکاغذات، واقعات کی روداد اور خط و کتابت کی نقل ہندوستان مولوی شوکت علی صاحب کے نام دفتر خلافت میں بھیجی جاتی ہے۔ وہ ترجمہ ہو کر اُردو میں شائع نہیں ہوتی ”مسلم اَوٹ لک“ میں ہر ہفتہ وفد کے تمام حالات، کاروائیاں بیانات اور تقریریں شائع ہوتی ہیں، اگر اردومیں ان کے تراجم خاص طور سے شائع ہوں تو بہت مفید ہوگا۔ مولانا ابوالکلام صاحب کی اطلاع کے لیے اگر اس خط کی نقل ان کے پاس بھیج دی جائے تو عنایت ہوگی، یا مناسب سمجھئے تواس کو اخبارات میں دے دیجیے۔ ہاں مسٹر مانٹیگو نے ۲۶اپریل کی ملاقات میں تسلیم کیاکہ آج کل ہندوستان سے مسلمان یا ہندو جو ہندوستانی بھی آیا اور مجھ سے ملا اس نے متفقاً یہ بیان کیسا کہ تحریک خلافت ہندوستان میں بہت پُر زور طریقے سے جاری ہے اور ہندومسلمان متحد ہیں۔ ایک خاص بات خط میں لکھنا بُھول گیا۔ اس لیے فوراً اس کا ضمیمہ لکھتا ہوں۔ اس کو بھی پہلے خط میں ملالیجیے۔ وزیر اعظم کی تقریر کے اختتام کے بعد محمد علی صاحب نے ان کا جواب دینا چاہا۔ لیکن انہوں نے جواب سُننا نہ چاہا۔ اور فرمایا میں رات بھر نہیں بیٹھا رہ سکتا، محمد علی صاحب نے کہا کہ ”افسوس ہے “ مگر انہوں نے پرواہ نہ کی۔ ا ور چل کھڑے ہوئے ناچار خاموش رہنا پڑا۔ آہ ری غلامی اور محکومی کی ذات ! لیکن اس کے بعد ہی مختلف