کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 83
اور ہندوستان تک اس کی تعریف کو پہنچا کر ایک کھیل کھیلنا چاہتے ہیں کہ ہمارے پُرجوش مسلمان بدگمان ہوں۔ ا س صحرامیں ایک ایک قدم پھونک کر رکھنا اور ایک ایک کانٹے کو دیکھ کر چلناچاہیے۔ غالباً آپ میرا مطلب سمجھے ہوں۔ خدا ان کی پالیسی سے دنیا کو محفوظ رکھے۔
وفد نے خلافت اور جزیرۃ العرب کے متعلق اسلام کے جو احکام تھے ان میں سے ہر ایک کو کہا ا ور بتایا، علمائے ہندوستان کے جو فتاویٰ اور دستخط آپ نے جمع کئے تھے اور میں نے اپنے ساتھ لے لئے تھے وہ بھی سامنے رکھ دیے لیکن وزیر اعظم صاحب نے بجز کھڑے کھڑے شکریہ کے ان کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔ ہاتھ بھی ان کے لینے کو نہیں بڑھایا۔
ارمینیا کی کیفیت یہ ہے کہ امریکہ اور انگلستان کے جو مشنری ایشیائے کو چک میں مقیم تھے ان کا ہاتھ اس کے اندر کام کررہاہے، انگلستان کے ارباب سیاست نےان مفروضہ مظالم کو اپنی سیاسی اغراض کے لیے مناسب سمجھا۔ اس لیے اخبارات رسائل، تصنیفات، مضامین اور تقریروں کے ذریعہ سے اس طرح ان مظالم کا شہرہ تمام کرۂ ہوامیں پھیلادیا ہے کہ آپ نے ترکوں کے متعلق ایک حرف بھی زبان سے نکالا کہ جواب میں ”آرمینیا“ کا لفظ مخاطب کی زبان سے نکلا۔ ہماری طویل سے طویل بہتر سے بہتر اور مدلل سے مدلل تقریر ومضمون کا جواب ”آرمینیا‘‘ کا مختصر لفظ سمجھا جاتاہے۔ ہم نے بمبئی میں جوں ہی جہاز پر قدم رکھا اور انگریزوں اور امریکنوں سے گفتگو پیش آئی۔ آرمینیا کے مظالم کی داستان انہوں نے شروع کردی، ہم ایسے ملک میں ہیں جہاں اخبارات وحیِ متلو کا درجہ رکھتے ہیں جس زمانے میں یہاں قسطنطنیہ کا مسئلہ پیش تھا روزانہ قتل عام کی خبریں کوچہ وبازار میں شائع ہواکرتی تھیں، عین اس شب کو جب پارلیمنٹ میں قسطنطنیہ کی بحث جاری تھی اور ہم لوگ بھی اسی وقت وہاں پہنچے تھے، ایک ممبر صاحب نے دورانِ مباحثہ ہی میں جیب سے ایک تار نکال