کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 76
باتیں کیں اور اس کےلفظ لفظ اور ایک ایک ادا سے جس انسانیت اور عالمگیر اُخوّت کا اظہار ہورہا تھاقلم عاجز ہے اس کی تصویر کشی کرسکے، اس نے کہامیں کیتھولک ہوں، میں سمجھ سکتا ہوں کہ مسئلہ خلافت تمہارے دل سے کس طرح لگا ہوگا۔ ا س نے کہا اگر فرانس تمہارے خلاف انگلینڈ سے متحد ہے تو میں اکیلافرانس سے لڑوں گا وہ گو فرنچ میں باتیں کررہاتھا ڈاکٹر نہاد شادایک ترک انگریزی میں ان کی ترجمانی کررہے تھے، تاہم مرحوم غالب کی طرح ؔ
واہ ری تقدیر کی لذّت کہ جواس نے کہا
میں نے جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
ترجمہ سےپہلے مطلب مفہوم ہوجاتاتھا، محمد علی صاحب باوجود ظاہری ڈیل ڈول کے ذرا موقع پاکر فوراً آنسو ٹپکادیتے ہیں اس وقت بھی آمادہ ٔ بکا تھے۔ مگر خیریت گذری۔ ہم لوگ جب اس کے گھر سے نکلے تو گوحضرت آٹھویں منزل پر تھے، لیکن کھڑکی سےجھانک کر سڑک پر چلنے والے غریب الدیار ہندوستانیوں کو سلام کررہے تھے۔
اور تو اور ترک جو ہمیشہ جفاگر اور ستمِ پیشہ سمجھے گئے، عجائباتَ فرانس میں سے یہ ہے کہ یہاں ایک ترک سوشیالسٹ سے بھی ملاقات ہوئی۔ بیچارے نہایت نیک اور غریب مزاج ہیں۔ ڈاکٹر توفیق بہزاد “نام ہے۔ ایک فرنچ اخبار میں اپنا ایک مضمون ”اسلام اور سوشلزم“ دکھایا۔
موسیو لانگے سے میں نے کہا، آج نہیں بلکہ آج سے دس سال پہلے میں نے ”اسلام اور سوشلزم“پر ایک مضمون لکھاہے۔
۳مئی کو کیمبرج کے مسلمان طلبہ نے دعوت دی ہے۔ ا ور اکثر مختلف البلاد مسلمانوں کو بلایاہے، آج شب کو اڈہزاجاناہے۔ و ہاں سے مانچسٹردونوں جگہ ہماری طرف سے جلسہ ہے۔ اس کے لیے جو اشتہار دیاہے اس پر جامع دہلی کا نقشہ بنا ہے۔ ۵ مئی کو پھر پیرس، ترکی ڈیلیگیٹوں سے پہلے پہنچنا ہے۔