کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 75
تقریر میں بے شک انہوں نے بھی ظاہر کیا کہ وہ امن وسلامتی کے طالب ہیں، لیکن جیسا کہ ایک فرنچ مین موسیو کو کونیو نے مجھ سے کہا کہ انگلینڈ کی لیبر پارٹی باجود سوشلسٹ ہونے کے نیشنلزم کی اسپرٹ سے خالی نہیں اور اس کا تجربہ وفد خلافت اور لیبر پارٹی کے متعدد مکالموں میں نمایاں نظر آیا۔ ہندوستان اور مصر کا سوال ان کے لیے بھی اسی قدر تلخ ہے جس قدر انگریز ٹوریوں کے لیے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ ”مستبد“ ( کنسرویٹو اور لبرل) ان کو غلامی “کا درجہ دیتے ہیں۔ اور یہ احرار ( لیبر)”دوست“سمجھنا چاہتے ہیں مگر ان کو اپنے سے علیحدہ کرنے پر کوئی راضی نہیں۔ خلافت کے مذکورہ بالا جلسہ میں محمد علی صاحب نے ایک موقع پر اپنے لیے ”فیلوسبجکٹ“( ہم رعایا) استعمال کیا۔ لینسبری نے زانو پر ہاتھ مار کر کہا کہ یہ کیا کہتے ہو ”فیلو سیٹزن“( ہم شہری کہو‘کیونکہ سوشیالسٹ کسی قوم کو رعایا نہیں سمجھتے۔ ) محمد علی صاحب نے ہنس کر کہا اگر مسٹر لینسبری بھی پانچ برس قید ہوسکتے تو ایسی تعلیم نہ دیتے۔
بہرحال پیرس جاکر بے شک میں نے دیکھاکہ” امن طلب و امن خواہ“افراد کی ایک خاصی تعداد وہاں ہے۔ موسیولانگے جو وہاں کی سوشیالسٹ پارٹی کے لیڈر اور سوشیالسٹ اخبار پاپولر کے ایڈیٹر ہیں۔ ایک محبت ِ مجسم انسان ہیں ”فرانس کے سوشیالسٹ انگلینڈ کے لیبر ہی کی طرح “تنگ خیال ہیں۔ وہ نیشنل کےبجائے انٹرنیشنل ہیں۔ مَیں فرانس میں ایک خاتون مید موزل پورد سے باتیں کررہا تھا کہ میری زبان سے ”لڑائی“ کا لفظ نکلا، اس نے کہا لڑائی کا لفظ کیوں بولتے ہو۔ میں تو امن کی متلاشی ہوں۔ یورپ کے متعدد ملکوں میں سے انگلینڈ میں نہیں بلکہ فرانس میں مَیں نے ٹیگور اور اس کے فلسفۂ امن کی تھیوری کی مدح سُنی۔ فرانس کے متعدد ڈیپیوٹیوں سے ملاقات ہوئی۔ جن میں ایک ہندوستان کے ڈیپوٹی بھی تھے، سب کے امن کا طالب پایا۔ موسیو کیلارفیرے ایک مشہور فرنچ اہل قلم سے ملاقات ہوئی۔ اس نے جس لطف و محبت، تواضع اور انسانی ہمدردی سے