کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 7
مسلم لیگ کی سیاست تھی، عام مسلمانوں کو اس سیاست سے کچھ زیادہ دلچسپی نہ تھی ان کی دلچسپی کا اصل مرکز بیرونی سیاست میں خلافت عثمانیہ تھی جس سے مسلمان دُنیا میں اپنی ملّی عزت و احترام کووابستہ سمجھتےتھے۔ ا ور جس کا سلطان ‘حرمین کا خادم اور اسلامی مقامات مقدسہ کا محافظ تھا، حوادث اور انقلابات ایسے پیش آئے کہ ۱۹۰۸ءمیں خلافت عثمانیہ میں انقلاب پیش آیا، نوجوان ترکوں کی انجمن اتحاد وترقی کی خفیہ تدبیریں کامیاب ہوئیں اور انور بے وغیرہ نے قسطنطنیہ پر قبضہ کر کے دستوری حکومت کا اعلان کردیا اور یہی وہ وقت تھا جب یورپ کی سلطنتوں نے مل کر یہ چاہا کہ ان نوجوان ترکوں کوسنبھلنے کا موقع دیے بغیر ترکی حکومت کےحصّے بخرے کرلیں، اس کا آغاز اس طرح ہوا کہ نوجوان ترکوں کے اعلان کے چند ہی روزبعد اٹلی نے دولت عثمانیہ کے آخری افریقی مقبوضہ طرابلس الغرب ( ٹریپولی ) پر حملہ کردیا اس حملے نے سارے دُنیائے اسلام میں آگ لگادی۔ خصوصیات کے ساتھ ہندوستان کےمسلمانوں نے بڑے جوش وخروش سے اس میں حصّہ لیا اور شبلیؔ اور اقبالؔ جیسے شعرائے باکمال نے اپنےترانوں سے مسلمانوں کوگرمایااقبال کا یہ شعر اب تک زمانہ کو یاد ہوگا۔ جھلکتی ہے تری اُمت کی آبرو اس میں طرابلس کےشہیدوں کا ہے لہو اس میں مسلمانوں میں جوش وخروش برپاہی تھاکہ انگریزوں نےہندوستان میں بنگالیوں کے سیاسی زورتوڑنے کےلیے جو اس وقت سیاست میں سب سے آگے تھے۔ بنگال کومشرقی و مغربی دو حصوں میں تقسیم کردیا، اسی تقسیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت کی حقیقت روزِ روشن کی طرح نمایاں ہوگئی۔ اور مشرقی بنگال جوسب سے پیچھے تھا اس کو اپنی ترقی کازریں موقع مل گیا اور