کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 69
ہم سمجھتےتھے کہ انگریزوں کواپنی شہنشاہی کا بڑاپاس ولحاظ ہوگا، مگر یہاں کی عمومی اور پبلک حالت یہ ہے کہ وہ عظیم الشان حکومت جس کے احاطہ میں کبھی آفتاب نہیں ڈوبتا، اس کی عظمت اس کی نگاہ میں ایک پرِکاہ کی برابر بھی نہیں ‘ہندوستان رہے یا جائے ان کے پاپوش کوبھی اس کی غرض نہیں۔ صرف چند ارباب ِ سیاست اور علم بردارانِ حکومت میں جو تما م کرۂ ارض کواپنی انگلیوں پر نچارہے ہیں، وہ غضب ناک ریزولیشن اور تار جو ہندوستان سے آتے رہے ہیں۔ ان کی انہیں خبر بھی نہیں، ا یسی قوم اپنے اقتدرا کو زیادہ دن تک قائم نہیں رکھ سکتی، تاریخ کی شہادت یہی ہے اور یہی شہادت اب بھی سچّی ہوگی۔
الحمدللہ میں بخیریت ہوں، وفد اپنے کاروبار میں مشغول ہے۔ سید حسین صاحب میری تجویز سے کل پیرس گئے ہیں کہ وہاں کے ایڈیٹر وں سے مل کر کوئی کامیابی کی راہ دریافت کریں۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں کسی خانگی معاملہ کی فکر نہ کروں، بزرگ من ! اگر اس کی فکر ہوتی تو سفر کی یہ زحمت کیوں گوار ا کرتا؟
والسّلام
۲۵ لندن، البرٹ ہال مینشن، ۷/اپریل ۱۹۲۰ء
برادرمکرم، السلام علیکم
مجھے اپنی سُستی بلکہ غلطی کا اقرار ہے کہ میں نے سیرۃ جلد دوم کا دیباچہ لکھ کر اب تک نہیں بھیجا، ا ور اب اس کو بھیج رہاہوں، غالباً یہ دوصفحے میں آجائے گا، مولوی عبدالسلام صاحب اس پر ایک نظر ڈالیں۔ فرمائیے، ندوہ میں کیا گزری، طلبائے قدیم کا مجمع کیساتھا، اہلِ بہار نے داد سخاوت دی یا نہیں، آپ کی سیر و سیاحت کے حدود کہاں سے کہاں تک رہے۔ نواب عماد الملک کو یاددہانی کا خط لکھیے۔ بجٹ ضرور بنواکر بھیجیے، ا فسوس ہے کہ اُردو اخبارات یہاں کوئی نہیں بھیجتا۔ بھائی شوکت اور ان کے