کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 63
ان کی قومیت الگ ہے۔ ان کی زبان الگ ہے، ہماری زبان ایک ہے ہمارا ملک ایک ہے۔ “ ارمنوں کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا کہ ان کی مظلومی اور قتل عام کی داستان محض یاروں کی گپ اور وزارت خانوں کی من گھڑت ہے، ہم ترکوں سے تھریس، قسطنطنیہ اور سمرنا چھین لینے کے حامی نہیں۔ ونیزیلاس سے ہم نے یہ صاف کہہ دیاہے۔ محمد علی صاحب نے کہا کیا یہ ممکن نہیں کہ جس طرح حکومتِ برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں تعلقات شہنشاہی ہیں۔ اسی طرح ملک عرب پوری آزادی اور مستقل حقوق کے ساتھ خلیفۃ المسلمین کی شہنشاہی کے تحت قائم رہے، اس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا مسلمانانِ ہندیہ تصور کرکے کہ عرب کی مقدس سرزمین بھی ان کے لیے اب امن وامان کا گھر نہیں، غم زدہ ہیں، وہ حاجیوں کی زبانی یہ سُن کر کہ وہاں انگریزی فوج برسراقتدار ہے، خون کے آنسو روتے ہیں، ہندوستان کے مقدس ترین عالم، علمائے ہند کے مسلّم شیخ اور ہمارے ملک کے پیشوائے ملّت وامام شریعت مولانا محمود الحسن صاحب نے ہندوستان سے ہجرت کرکے ”بلد الامین“ میں اقامت کی۔ و ہ پالٹکس اور سیاست کے نام سے بھی آگاہ نہیں، و ہ کفرستان ہند سے بھاگ کر نور وایمان کے مسکن میں گئےتھے لیکن وہاں بھی انہیں پناہ نہ ملی۔ کیا یہ اس بلدۃ الحرام کی تحقیر نہیں، جو عاصی وآثم کا بھی مامن ہے۔ لیکن مامن نہیں تو اس مسلمان کے لیے نہیں جو ملّت بیضا کا ہادی اور شریعت غرّاء کا شارح ہے، ہمارے صوبے کے کونسل میں جب ان کی قید کے متعلق سوال کیا گیا تو جواب ملا کہ ان کو برٹش گورنمنٹ نے نہیں بلکہ عرب گورنمنٹ نے قید کیاہے۔ اگر یہ سچ ہے تو کیونکر کسی عرب حکومت کی خود مختاری کا مسلمان ہند کو یقین آئے، حداد پاشا نے کہا میں نے بھی اس کے متعلق کچھ سنا ہے نوری سعید نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں، میں اس کی تحقیق کروں گا۔ اور مولانا کا نام ایک کاغذ پر لکھ لیا۔ اس کے بعد شکریہ ادا کیا۔ اور رخصت ہوئے۔ دروازے