کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 61
دیباچہ تو پہنچ گیا ہوگا۔ میں تصور کررہا ہوں کہ اس کو دیکھنے کے ساتھ غیظ وغضب کے کچھ کلمات زبان اقدس سے نکلے ہوں گے مگر اس وقت جب میں آپ سے سات ہزار میل دور ہوں۔ آپ کے اس غیظ وغضب کا کیا ڈر ہے۔ کل ہمارا وفد لندن سے پیرس آیا۔ لندن میں اس ہفتہ چند واقعے قابل ذکر ہیں، حجاز وشام کے عربوں کا وفد لندن آیاہے، نوری سعید پاشا اور حداد پاشا نائبین امیر فیصل اس کے سرگروہ ہیں۔ پہلے صاحب مسلمان اور دوسرے عیسائی ہیں۔ ا ور بھی چند ممبر مسلمان اور عیسائی ساتھ ہیں۔ ایک دن پہلے عربی میں ان سے خط لکھ کر دریافت کیا کہ اگر کوئی مانع سیاسی نہ ہو تو ہم لوگوں کو ملنے کی اجازت دیجیے۔ ٹیلفون سے جواب دیا کہ ۱۲ اپریل کو ۱۰ بجے ملئے۔ میں اور محمد علی صاحب ان سے ملنے گئے ( سید حسین صاحب پیرس بھیجے گئے تھے کہ وہاں کی خبریں لائیں ) گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ملاقات رہی۔ نواجوان سعید ایک نوجوان ‘تیز طبع اور ہوش مند شامی عرب [1]ہیں۔ پہلے ٹرکی کی فوج میں لفٹنٹ تھے اور اب جنرل ہیں۔ افسر فوج کی وردی میں تھے، بہت محبت اور تپاک سے ملے۔ میں نے عربی میں خلافت وجزیرۃ العرب کے مسائل اور ہندوستان کے مسلمانوں کی کیفیت اور ان کے مطالبات مذہبی بیان کئے اور ذرا مؤثر اور شاعرانہ عبارت میں مطلب ادا کیا۔ وفد عربی کے اکثر ممبر انگریزی سمجھتےتھے۔ محمد علی صاحب سے رہا نہ گیا، انہوں نے انگریزی خطبہ شروع کردیا۔ ترک و عرب کے اختلافات کو جنگ نے اسلامی مصالح اور دینی مقاصد کو کہاں تک صدمہ پہنچایا اس کی تفصیل کی، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مذہب کا درد اور ملّت کا غم زیر خاکستر انگارہ ہے۔ جو عرب و عجم وترک ہر دل میں جو کلمہ ٔ اسلام سے گرم ہے چھپا ہوا ہے، تقریروں کا سلسلہ ایسامؤثر ہوا کہ دونوں طرف دل بھر آئے۔ ا ور آنکھوں سے اپنی بے کسی پر آنسو ٹپک پڑے۔
[1] یہ وہی ہیں جو اب عراق میں وزیر ہیں ۱۲۔