کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 60
۲۶ کو لندن میں داخلہ ہوا۔
جب سے ہمارا وفد یہا ں آیا ہے اپنے کام میں شب وروز منہمک ہے۔ آخری فیصلہ جو کچھ ہو اور یقیناً وہ تمام تر ہماری خواہشوں کے مطابق نہ ہوگا لیکن ہم فرض اپنا ادا کرچکے۔ بیمار اگر مرگیا تو تیمارداری کےحقوق فراموش نہ ہوں گے لیکن مسلمان اس سے ناامیدی کا سبق نہ لیں بلکہ ہمیشہ کے لیے اب اپنے دشمن کو تاریخی دشمن سمجھنا چاہیے۔ اور ہلاکو و چنگیز کے بعد ایک تیسرے نام کا اور اضافہ کرنا چاہیے۔ ہم نے پھر نئے سرے سے اپنی عمارت کے لیے ایک نئی دیوار قائم کریں گے۔ اور ضرور قائم کریں گے۔
یورپ آکر ہم کو جو نئی بات ملی وہ یہ ہے کہ ہم اپنی عالمگیر تباہی سے مایوس نہ ہوں یہاں متعدد قومیں ہیں جو ہماری طرح خستہ حال ہیں مگر انہوں نے اب تک ہمت نہیں ہاری ہے اور جدوجہد میں مصروف ہیں، حالانکہ ان کی تعداد دشمنوں کے مقابلے میں نہایت قلیل ہے۔ اور مسلمان تو دنیا میں اپنی بے شمار تعداد رکھتے ہیں۔ وہ کیوں مایوس ہوں، ہزارسال کے بعد کون کہہ سکتا تھا کہ یہود رومیوں کی آخری ستمگری کے بعد دنیا میں اپنی ہستی قائم رکھ کر ۱۹۲۰ءمیں تلوا ر پکڑ کر فلسطین میں اپنا حق قائم کریں گے۔
لیکن اگر سچ پوچھو تو ترقی کے لیے نہ تعداد کوئی چیز ہے اور نہ رقبہ کا کوئی سوال ہے ‘ صرف روحانی طاقت اور اخلاقی قوت اصل بنیاد ہے، روحانی طاقت اور اخلاقی قوت سے خدا جانے تم کیا مطلب سمجھو! رقبہ اور تعداد کے لحاظ سے روس اور جاپان میں کیا نسبت ہے ؟ انگلینڈ اور ہندوستان میں کیامناسبت ہے؟ میں چاہتا ہوں کہ ہر مسلمان اب اس نئے عقیدے کو اچھی طرح سمجھ لے۔ الحمد للہ میں بخیریت ہوں۔
۲۱پیرس، رجینا ہوٹل ۱۴ اپریل ۱۹۲۰ء
برادر مکرم اسلام علیکم
نامۂ مبارک ملا، سیرۃ جلد دوم میں کوئی نقشہ نہ ہوگا۔ میرا بھیجا ہوا رجسٹرڈ