کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 59
گجراتی، کچھی، ٹامل، تلنگو، بنگالی، پنجابی، غرض ہندوستان کی کوئی زبان نہ تھی جس میں نظمیں نہیں پڑھی گئیں، دل چسپ مجمع تھا اور ہندوستان کی بو قلمونی کا مرقع تھا، مسز نائیڈو نے بھی اپنی ایک انگریزی نظم پڑھی۔ سید سلیمان ندوی نامی ایک غیر فطری شاعر نے بھی اپنی اُردو نظم پڑھی ۲۶ کو گئے ۲۸ کو واپس آئے ۲۹ کو ہوس آف کامنس میں لیبر ہارٹی کے کچھ لیڈروں سے گفتگو ہوئی۔ مبادلۂ خیال ہوا۔ ان کو تمام پہلو سمجھائے گئے، کاغذات دئیے گئے، ٹرکی کی صوبہ وار مردم شماری بتائی گئی۔ اُنہوں نے تسلیم کیا کہ اب تک ہم نے اس مسئلہ کو اس طرح نہیں سمجھا تھا اور ہم اس میں کوشش کریں گے۔ ۳۰ کو رائل ایشیا ٹک سوسائٹی کا جلسہ تھا، پروفیسر مار گولیتھ نے مجھے دعوت کا رقعہ بھیجا تھا لیکن مجھے دیر ہوگئی، جب پہنچا تو اندر کا کمرہ بھر چکا تھا، ناچار باہر کھڑا ہوا۔ وہاں اتفاق سے ایک شامی عیسائی اسکندر سیفی جو یہاں کے مدرسۂ مشرقیات میں پروفیسر ہے ملاقات ہوگئی اور ایک غضب آلود مناظرہ شروع ہوگیا، مسئلہ زیر بحث ٹرکی تھا، اس نے کہا کہ ترک بہت برے حکمران ہیں، میں نے کہا دنیا میں اچھا حکمران کون ہے۔ سب کی خانہ تلاشی لے لو۔ ۲۱؀ لندن ۷/ اپریل ۱۹۲۰ء عزیزم سلمہ ا، ظ معاف کرنا کہ میں نے تمام سفر میں تمہیں ایک خط بھی نہیں لکھا۔ سبب یہ تھا کہ مجھے تمہاراپتہ یاد نہ تھا، بھائی صاحب سے پوچھ بھیجا تھا، مگر کل اتفاق سے ایک جگہ کاغذات میں تمہارا پتہ ٹکا ہوا مل گیا، اسی پتہ پر یہ خط لکھ رہا ہوں، امید ہے کہ منزل مُراد تک پہنچ جائے گا۔ میرا یہاں آنا اس قدر جلدی میں ہوا کہ میں تمہیں اطلاع بھی نہ دے سکا اور عزیزوں کو بھی صرف اطلاعی خطوط ڈال کر بمبئی چل دیا۔ یکم فروری کو بمبئی سے جہاز پر بیٹھا ۲۲ کو وینس اترا اور اٹلی و سوئزرلینڈ و فرانس کی سر زمینوں کو طے کرکے