کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 58
ہوتے ہیں، انہوں نے ایک طرف سے سوالات کا سلسلہ باندھ دیا۔ پنجاب کے کوئی پروفیسر بالکشن ہیں، جن کا تعلق گرو کل سے بھی ہے۔ انہوں نے آریہ سماج کے مناظرانہ ٹھاٹ سے مباحثہ شروع کیا۔ صبح کے ۹ بجے سے شام کے ۷ بجے تک بازار گرم رہا۔ بیچ میں صرف کھانے اور چائے کے لیے مجلس برخاست ہوئی۔ سارے اعتراضات کا مبنیٰ یہ تھا کہ انڈین نیشنلزم چاہتی ہے کہ آپ کی کوششوں کا مرکز صرف ہندوستان ہو۔ پین اسلامزم دنیا کو حاوی ہے تو آپ خاص وعام کو کیوں کر یکجا کرسکتے ہیں۔ ہندوستان اور اسلام کے اغراض جب باہم متصادم ہوں گے تو آپ کیا کریں گے ؟“
میری حالت ایسے موقع پر دیکھنے کے لائق ہوتی ہے، اگر انگریزی نہ سمجھتا تو کچھ الجھن نہ ہوتی۔ لیکن ماشاء اللہ انگریزی اب سمجھ لیتا ہوں، بول لیتا ہوں لیکن تقریر پر قدرت نہیں رکھتا۔ اس لیے طبیعت میں اس قدر ا ُلجھن ہوتی ہے کہ حَدِّ بیان سے باہر، کبھی تقدیر کوکوستاہوں، کبھی اپنی گزشتہ کوتاہیوں پر ماتم کرتا ہوں کہ کیوں طالب علمی میں انگریزی میں محنت نہ کی۔ بہرحال بمصالح مسز نائیڈو نے مجھ سے کہا کہ چائے کے بعد جو جلسہ ہو تو آپ تقریر اُردو میں کیجیے۔ ( وہ ایک اور جلسہ میں میری تقریر کو سن کر بے حد داد دے چکی ہیں ) اکثر لڑکے سمجھ جائیں گے لیکن احتیاطاً انگریزی میں ترجمہ بھی کردیا جائے گا۔ چنانچہ میں نے تقریر کی۔ آپ خود بینی کا الزام نہ دیں تو میں کہوں کہ میں نے ایسی اچھی تقریر کی کہ ایک معترض بھی چوں کر نہ سکا۔ سب نے دلائل کی قوت کو تسلیم کرلیا اور مان لیا کہ انڈین نیشنلزم اور پین اسلامزم کیونکر متحد ہوسکتے ہیں۔ ایک رات کو تو موسیقی کا تماشہ رہا۔ ”بندے ماترم“اور ”ہندوستان ہمارا“اس کاآغاز وانجام تھا۔
دوسری رات کو مشاعرہ تھا، زمین پر نشست تھی، سب ہندوستانی لباس میں تھے۔ برقی لیمپوں کے باوجود موم کی شمع حسبِ آداب مشاعرہ سب کے سامنے باری باری سے رکھی جاتی تھی۔ مسز نائیڈوشمع انجمن یعنی میر مشاعرہ تھیں۔ اُردو، انگریزی، مرہٹی،