کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 57
اپنے لفظوں میں تو کیجیے۔ لیبر پارٹی سے کچھ امید ہے۔ یورپ میں آج کل ہنگامہ رستخیر ہے۔ لیبر پارٹی یا سوشیا لسٹ ہر جگہ زور پکڑ رہے ہیں، اگلستان میں یہ انقلاب امن و سکون کے ساتھ ہوگا۔ فرانس کی جمہوریت بھی انقلاب کا خواب دیکھ رہی ہے، میں ہر روز انگریزی کے کم از کم آٹھ دس روزانہ اخبار پڑھتا ہوں۔ محمد علی صاحب کو تو فرصت نہیں ہوتی، میں ہی اخبارات پڑھ کر ضروری مقامات پر نشان لگادیتا ہوں، وہ ان کو پڑھ لیتےہیں، مسٹر ہارنیمن( سابق ایڈیٹر بمبئی کرانیکل) جو ہندوستان سے باہر لے گئے ہیں وہ عموماً وفد ہی کے ساتھ رہتے ہیں، مضامین اور مشوروں میں مدد دیتے ہیں۔ نہایت نیک طینت اور کریم الاخلاق ہیں، گوشت نہیں کھاتے، نباتات خور ہیں۔ آپ سن کر تعجب کریں گے کہ شہر لندن کی وسعت صرف اسی قدر ہے جس قدر ریاست رامپور کے حدود کی یعنی چالیس میل۔ اس ہفتہ میں ایک چھوٹا سا سفر بھی ہوا، یہاں ایک دو سال سے طلبائے ہند مقیم انگلینڈ سال میں ایک دفعہ ایک جگہ ایک ہفتہ کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ انڈین کانفرنس اس کا نام ہے۔ امسال اجتماع بٹرلی واقع ڈربی شائر میں ہوا تھا، ہم لوگ بھی مدعو تھے۔ مَیں اور محمد علی صاحب گئے تھے راہ میں مسز نائیڈوبھی ساتھ ہوگئیں۔ بٹرلی کے اسٹیشن پر طلباء نے ’’بندے ماترم“ کے ہجوم میں مہمانوں کو اُتارا، تمام اطراف انگلینڈ سے ہر صوبہ کے تقریباً سو سوا سو لڑکے آئے تھے جن میں ۵ یا ۶ لڑکیاں بھی تھیں، سکونت کے لحاظ سے طلبہ کی زیادہ تر تعداد بمبئی کی تھی۔ اس کےبعد بنگال کی، بعد ازاں یوپی اور پھر مدراس کی۔ محمد علی صاحب سے فرمائش کی گئی کہ وہ ”انڈین نیشنلزم “ اور ”پین اسلامزم“ پر تقریر کریں، انہوں نے تقریر اس طرح کی کہ گویا وہ کسی مسلمان مجمع میں ہیں۔ یہاں قاعدہ یہ ہے کہ مقررّ کی تقریر کے بعد حاضرین میں سے اگر کسی کو تقریر کے متعلق کوئی شبہ یاخیال ہوتاہے تو وہ پیش کرتا ہے۔ طالب العلم ہر جگہ کے طالب العلم