کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 56
۲۰؀ لندن البرٹ ہال مینشن یکم اپریل ۱۹۲۰ء برادر عزیز! سلام محبّت شمام م، ع آپ کا خط مع پیکٹ ملا، پیکٹ میں معارف کے چار نمبر اور چار نُسخے روداد کے تھے۔ لکھائی اور چھپائی دونوں بُری تھی۔ معارف کے شذرات کی پالیسی امن پسندی وراحت طلبی مجھے پسند نہ آئی۔ ماجد صاحب کو بھی میں نے لکھا ہے، مولوی عبدالباری صاحب شاید آگئے ہوں، ان کا آنا سر آنکھوں پر، وہ جس طرح اور جس شرط پر رہیں قبول ہے۔ سیرت کی جدول شاید چھپ گئی ہو۔ جدول سے میری مراد ٹائیٹل پیج ہے۔ آئندہ خط کے ساتھ سیرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مطبوعہ صفحات بھیجیے گا، کوئی نیا کاتب آیا یانہیں۔ اگر معارف ماجد صاحب کے ہاتھ میں نہ دیتا تو کیا کرتا، مضمون نویسی اور پرچہ کی تجربہ کار انہ ادارت دونوں دو چیزہیں۔ اس کی اہلیت بھی ہمارے ہاں کسی کو نہیں۔ آپ کہتے ہوں گے کہ وزیر اعظم نے جب سوکھا سا جواب دے دیا تو اب تم لوگ کیا کررہے ہو۔ بھائی جان یہاں کی پالٹِکس یہ ہے کہ جب تک کوئی کام واقع نہ ہوجائے اس کوا لفاظ کا طِلسم جانو، واقعہ نہ سمجھو۔ پہلے بھی علم تھا۔ اور اب علم الیقین ہے کہ بہترین مدّبر یہاں وہ سمجھا جاتا ہے جو کذب اور دروغ گوئی کے فن میں سب سے زیادہ کمال رکھتا ہو۔ چنانچہ مسٹر لائڈ جارج یہاں کے بہترین مدّبر ہیں۔ روزانہ پارلیمنٹ میں اخباروں میں، اسپیچوں میں ان کے تحائف بیان کی ایک نئی مثال ملتی ہے، اصول موضوعہ ”سلف ڈٹرمینشن “ ہر جگہ ان کے لیے سیاہی کا داغ ہے۔ آج کل آئرلینڈ کے لیے ہوم رول بل پاس ہورہا ہے۔ لیکن وہ لوگ اسی اصولِ مسلّمہ سلف ڈٹر مینشن کی بناء پر ری پبلک کے طالب ہیں۔ ان کے جواب میں ۳۱ مارچ کی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ وہ”قومیں جو ایک مدّت دراز یعنی صدہا سال سے برابر ایک حکومت کے ماتحت رہتی چلی آئی ہیں۔ اُن کے لیے سلف ڈٹرمینشن کے کیا معنی۔ “ ذرا اس معنی کی تفسیر آپ