کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 55
رفتہ رفتہ تجارت پیشہ لوگوں کے ہاتھوں میں آئی، مدّت سے مزدور، اہل محنت سوشیالسٹ کے نام سے طاقت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ روس میں یہ تحریک کامیاب ہوئی۔ جرمنی کا موجودہ انقلاب اسی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ فرانس میں بھی لوگ کُلبلارہے ہیں۔ سوئڈن اور ڈنمارک میں بادشاہ مشکلات میں مبتلا ہے۔ انگلینڈ میں بھی یہ تحریک امن وسکون کے ساتھ جاری ہے۔ اُن کے زور توڑنے کو لائڈ جارج پارلیمنٹ میں ایک نئی جماعت سب ملا جلا کر قائم کرنا چاہتے ہیں۔
اس ہفتہ میں ایک چھوٹا سا سفر بٹرلی تک ہوا، ہندوستانی طلبہ جو انگلینڈ کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں۔ سال میں ایک دفعہ ایک جگہ جمع ہو کر لطف ملاقات و تبادلۂ خیالات حاصِل کرتے ہیں۔ امسال یہ مجمع بٹرلی اسٹیشن سے اتر کر سوانک نام ایک گاؤں میں ہوا، دُور تک میدان تھا، اور یہ منظر یہاں بسا غنیمت ہے۔ گاؤں میں ایک عمارت بنی ہے، جس میں بیک وقت کم از کم ڈیڑھ سو آدمی ٹھہرسکتے ہیں، وہاں سب لوگ اُترے تھے۔ مسز نائیڈو شمع انجمن تھیں۔ ایک جلسہ ہوا جس میں طلبہ جمع تھے۔ محمد علی صاحب نے ’انڈین نیشنلزم اور پین اسلامز “پر تقریر کی جلسہ نے طول کھینچا، میں نے بھی اُردو میں تقریر کی، اور الحمد للہ کہ وہ خاتمۃ المباحث ثابت ہوئی۔
۵ یا ۶ اپریل کو پیرس کا عزم ہے، وہاں کے اخبارات میں کچھ کام کرنا ہے، ایک ترک ڈاکٹر ارشاہ نے صحیح کہا کہ اب تک ہمارا بھروسہ تلوار پر تھا اور ہمارے دشمنوں کا قلم وسیاہی پر۔ اب ہم کو بھی اسی پر قوت صرف کرنا ہے، یونانیوں اور ارمینیوں نے انگلینڈ وامریکہ میں اپنا پروپیگنڈا نہایت زور وشور سے پھیلادیا ہے، چند مہینوں کے کام میں سالہا سال کی تحریک کا سیلاب نہیں رُک سکتا۔
ڈاکٹر صاحب جو میرا خط پڑھتے ہیں، سلام لیں