کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 54
بحمدللہ کہ اب خیریت ہے۔ ”مقناطیس“ کی قوتِ کشش میں شک نہیں، لیکن پہلے ”لوہا“ چاہیے، اس سے محرومی ہے۔ پھر وجود مقناطیس ایک تماشا سے زیادہ نہیں اور کچھ سُنا؟ یہاں بعض سینما میں ہمارے منظر ومرقع دکھائے جارہے ہیں، والسلام۔
۱۹ لندن، یکم اپریل ۱۹۲۰ء
عم محترم، سلام علیک ع، م
اس ہفتہ میں آپ کے دوخط ملے، ایک شاید ۲۸ فروری کا اور دوسرا ۵ مارچ کا تھا۔ مجھے بالکل یاد نہ تھا کہ میں نے پورٹ سعید سے بھی آپ کو خط لکھا ہے، اب آپ کے لکھنے پر یاد آیا۔ اب شاید وینس سے بھیجا ہوا کارڈ بھی آپ کو مل گیا ہوگا، آپ نے پوچھا ہے کہ کیا ترکوں کو بھی اپنی تباہی کا احساس ہے۔ آپ نے عجیب بات پوچھی، ہر ترک اس وقت مجسم فکر واندیشہ ہے، یہاں متعدد ترکوں سے جو یہاں ملازم یا تاجر ہیں یا مدّت سے یورپ میں ہی رہتے ہیں، کبھی کبھی اتفاق سے ملاقات ہوتی رہتی ہے، جمعہ کی نماز میں کبھی مل جاتے ہیں، کوئی خودبخود ملنے کو چلا آتا ہے، ہم لوگ اپنے کام کو شک وشبہ سے پاک رکھنا چاہتے ہیں ‘اس لیے جو جلوت میں کہنا ہے وہی خلوت میں کہتے ہیں۔
شریف پاشا جو سلطان عبدالحمید خاں کے اے ڈی سی تھے اور نسلاً کُرد ہیں۔ وہ نوجوان ترکوں کے مخالف تھے۔ نئی جماعت نے ان پر کئی دفعہ حملہ کیا، وہ پیرس میں رہتے ہیں، اسلامک انفارمیشن بیورو کے پیرس میں صدر ہیں، ان سے لندن میں ملاقات ہوئی، انہوں نے کہا میں نوجوان ترکوں کا مخالف تھا، لیکن اب تمام اختلافات کو بُھلادیتا ہوں اور ملک وملّت کے نام سے ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر نہاور شاد پیرس میں اپنا کام کررہے ہیں اور فرنچ پبلک کو ایک فرنچ رسالہ کے ذریعے مطلع اور باخبر رکھنا چاہتے ہیں۔
یورپ میں پہلے زیادہ طاقت زمینداروں اور تعلقہ داروں کے ہاتھوں میں تھی،