کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 53
عالم ہیں، تغلق نے خسرو کو پیدا کیا، اکبر نے عرفی کو نشوونما بخشا، قابوس وخوارزم شاہ نے ابن سینا کو ابن سینا بنایا، دولت سامانی نہ ہوتی تو ابن سینا کو گنجینۂ علوم کتب خانہ میّسر نہ آسکتا تھا۔ سلجوق وترک نہ ہوتے توجلال الدین رومی ایشیائے کو چک کی سر زمین میں نہ پید اہوتے، محکوم قوم کا درماندہ دماغ فلسفۂ عمل کے نکتہ کو بھی نہیں سمجھ سکتا، بوسؔ اگر حاکِم قوم میں پیدا ہوتا تو اس کو اپنے تجربہ خانے کے لیے دربدر بھیک نہ مانگنی پڑتی، ٹیگور کا عالمِ تخیّل اگر اس کی دنیائے عمل کے مطابق ہوتا توخطاب اعزاز سے محرومی پسند نہ کرتا۔ انسان کے تمام دماغی وجسمانی قویٰ اس کے قوائے ؟ کے ماتحت ہیں۔ دل افسردہ قوم کے لیے نہ فلسفہ کا امن اور نہ شاعری کا ہنگامہ، کوئی چیز مطلوب نہیں۔ خیام کا پُرسکون دماغ ملک شاہ سلجوقی کی تلوار کے سایہ میں آرام پارہا تھا۔ ۳۰ مارچ کو رائل ایشیا ٹک سوسائٹی کے جلسۂ افتتاحِ تعمیر میں شریک ہوا، اکثر علمائے مشرقیات جمع تھے، لارڈرے نے ایک مشرقی مبحث پر اور چینی سفیر متعین لندن نے ”چینی تمدن “پر ایک مضمون پڑھا، جس میں ایک فقرہ مزے کا تھا۔ ”ہم چینی پہلے سمجھتے تھے کہ ہمارے سوا اور تمام دنیا غیر متمدّن و وحشی ہے، لیکن یہ خیال رفتہ رفتہ کم ہوگیا اور اب ہم سمجھتے ہیں کہ نہیں اور لوگ بھی کچھ متمدن ہیں۔ “ کتب خانہ دیکھا، کچھ زیادہ بڑا نہیں ایک مصوّر شاہنامہ نمائش کی میزپر تھا۔ آپ معارف میں مہینہ میں ایک دفعہ بھی مطبوعات جدیدہ کے لیے کافی رسالہ نہیں پاتے اور یہاں بعض روزانہ اخبارات میں یہ عنوان ہوتاہے۔ ”آج کے مطبوعات“ یہ ہیں تفاوت ِرہ از کجاست تا بکجا، ہمارے اور آپ کے علّت ومعلول کی تعیین میں جھگڑا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ پہلے شکسپیئر چاہیے، میں کہتا ہوں کہ پہلے آزاد ہندوستان محکوم قوم اور اس کی علم دوستی کی مثال یہ ہے :۔ شب جو عقدِ نمازمی بندم چہ خورد بامداد فرزندم