کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 52
۸)عدل کردنیامیں غافل زندگانی پھرکہاں زندگی بھی گزررہی تویہ حکومت پھرکہاں
سداعیش دنیا دکھاتا نہیں گیاوقت پھر آتانہیں
معاؔرف کاکوئی پرچہ اب تک مجھے نہیں ملاہے۔
۱۸ لندن البرٹ ہال مینشن، یکم اپریل ۱۹۲۰ء
محبِّ گرامی! تسلیم نیاز،
میرا پچھلا خط آپ کو مل گیا ہوگا، جس میں مَیں نے آپ کی خاموشی کی شکایت کی تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کارکنان غیب آپ کی تائید میں تھے کہ فوراً دوسرے دن آپ کا خط کک کمپنی کی معرفت پہنچاگئے۔ یاد آوری کاشکریہ !
مولوی عبدالباری (ندوی) کے واقعہ کی اطلاع مولوی مسعود علی صاحب پہلے کرچکے تھے، اور میں انہیں لکھ چکا ہوں، ان کا آنا میرے لیے باعثِ فخر ہے۔ آپ نے جو کچھ اس مسئلے کی نسبت لکھا ہے مجھے حرف بہ حرف اس سے اتفاق ہے، مولوی مسعود علی صاحب لکھتے ہیں کہ مولوی حمید الدین صاحب خود ان کے بُلانے پر مصر ہیں۔
خواجہ حسن نظامی صاحب کی پُرلطف تجویز آرچ بشپ آف کنٹریری کا پورا جواب ہے۔ آرچ بشپ اس لیے اس مسئلہ میں کوشاں ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ ارمن اور گریک چرچ اس کی ماتحتی قبول کرکے پروٹسٹنٹ ہوجائیں گے، اور مسلمانوں کو بھی عیسائی بنانے میں پوری مدد ملے گی۔
فروری کا معارف پہنچا۔ میں قطعاً آپ کی اس رائے کا مؤید نہیں کہ ”خسرو کی تلاش کرو، تعلق کی نہیں، سعدی چاہیے، سعد زنگی کی حاجت نہیں، حافظ مطلوب ہے۔ شاہ شجاع نہیں۔ ابن رشد کو ڈھونڈو، حکم کو نہیں، شیخ الاشراق بس ہیں، سلطان ایوبی درکار نہیں، ابن سینا سے مطلب ہے، خوارزم شاہ اور ابوالمعانی قابوس سے نہیں، میرے امن طلب دوست اور سکون پسند فلسفی !”تخیّل اور عمل“ دو مختلف