کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 50
مناظرہ کرنے کےلیے میدا ن میں اترآئے ہیں۔ اوبزرور“میں ان کی اور سید حسین صاحب کی کشتی ہوئی۔ ایک ایطالین مستشرق کو”مسلم اوٹ لک“ میں میں نے پچھاڑا۔ ایک اور مضمون تیار ہوگیا ہے جس میں تمام مستشرقین کونبردآزمائی کی دعوت دی گئی ہے۔ وفدِ خلافت جب وزیر ہند کی ملاقات کوگیا تو اس کو کچھ دیر وہاں بیٹھ کر انتظارکرنا پڑا جہاں وزارتِ ہند نشست کرتی ہے یعنی انڈیا کونسل ہال، اس چھوٹے سے کمرہ کو دیکھ کر خیال آیا کہ یہ وہ ایوان عالی ہے جہاں بیٹھ کر ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ ہوتاہے، معارف کے کام کی یہ بات ہے کہ ایوان وزارت کی میز پر پیتل کے چند موٹے پتھر مع ایک چھوٹے سے دستہ کے نظر آئے، وہ کاغذ دبانے کے پیپرویٹ تھے، تعداد میں آٹھ تھے ان پر فارسی اور اردو اشعار کندہ نظر آئے، فارسی کے اشعار عموماً سعدی کے ہیں، ان تمام اشعار میں بادشاہ کوعدل وانصاف کی تعلیم ہے۔ کاش اگر وزرائے ہند ان اشعار کےمطالب کوسمجھ سکتے تواپنے فیصلوں میں اس قدر تنگ دلی اور سختی روا نہ رکھتے میں تصور کرتاہوں کہ ہر نئے فیصلے کے وقت پیتل کی یہ بے زبان مورتیں اپنافرض موعظت اداکرتی ہوں گی۔ پرنس غلام حسین آف میسور نے ۱۸۵۴ءمیں عذر سے تین برس پہلے ان کو پیش کیا ہے۔ خیال کرتاہوں کہ یہ شاید سلطان میسور کے دربار کی یادگارہوں۔ صدر ایوان وزارت کے سامنے موجود ؟ ہیں اُن پر اشعار ہیں :۔ ۱)ہرکہ اوراعدل عادت می شود بے گماں عمرش زیادت می شود ہرکرابرخلق بخشا ئِش بود آبروئے اوورافزائش شود ازسکاوت آبروافزوں شود ازبخیلی بےخردرامردن شود بارعیت چوں کندحاکم ستم مرادباشدبتادرملک کم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲)بد و نیک ہرچند ہے بےثبات ولیکن جہاں میں ہے بہتریہ بات