کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 48
تمام چیزوں میں سب سے زیادہ تکلیف دہ میرے لیے کالر ہے۔ یہاں انجن اور آتشدان کے سبب سے اس قدر دھواں پھیلتا ہے کہ ذرا کسی چیز کوہاتھ لگائیے توہاتھ کالے ہوجاتے ہیں۔ شاید اسی لیے سیاہ لباس انگلستان کا کیا بلکہ سارے یورپ کا مخصوص لباس قرارپاگیاہے۔ وزیر اعظم صاحب ۱۹مارچ کو ملاقات ہوئی، تمام داستان سن کرفرمایا کہ ہم سلف ڈیٹرمینشن کےسواکوئی اصول نہیں جانتے ہیں، ان کی تقریرکے بعد جب محمد علی صاحب نے جواب دیناچاہاتوفرمایا کہ ہم از سرِ نومباحثہ کرنا نہیں چاہتے، اور نہ رات تک یہاں بیٹھنے کاخیال ہے، یہ کہہ کرا ٹھنے کاسامان کرنے لگے، ناچار ہم لوگ اٹھے تاہم یہ کہہ دیاگیا کہ اس اصول کے مطابق بھی ٹرکی کے کسی صوبہ میں بھی حتّٰی کہ آرمینیا میں بھی عیسائی قوم کی کثرت نہیں، میرے ہاتھ میں کچھ کاغذات تھے، فرمایاکہ کیا آپ اس کو پیش کرنا چاہتے ہیں، میں نے کہا جی نہیں، یہ مسئلہ خلافت کے متعلق قرآن وحدیث وفقہ کے احکام اور علماء کے فتاویٰ ہیں۔ ۲۱کوووکنگ کا سفرکیا، میں نے ظہر کی نماز پڑھائی، محمدعلی اور سیدحسین صاحب کی تقریر یں ہوئیں۔ ہندوستانی مسلمان اور انگریز نومسلم بھی تھے، محمدعلی صاحب کی تقریر پُرجوش تھی، نامہ نگار جو نوٹ لے رہےتھے ان میں ایک انڈیا آفس کےخبررساں بھی تھے، دوسرے دن اس تقریر کانہایت خطرناک خلاصہ بعنوان ”محمدعلی کی دھمکی انگلینڈ کو‘‘شائع ہوا، مخالف اخبار نے خوب نمک مرچ لگاکر اس پر طبع آزمائیاں کیں۔ اس لیے مناسب سمجھاگیا کہ محمد علی صاحب ایک توضیح کن خط اخبارات میں لکھ دیں۔ چنانچہ اس پر عمل کیا گیا۔ رات کو یہاں کی مسلمان وانگریز ہمدرد ترکِ مجالس کی طرف سے کامیاب جلسہ ہوا، محمد علی سیّدحسین، قادر بھائی بیرسٹر بمبئی، ڈاکٹر عبدالمجید بیرسٹر ( مونگیر)