کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 47
منرسروجنی نائیڈوسےجن کی نسبت معلوم ہےکہ ایڈیٹر معارف نے کیالکھا تھا۔ یہاں اب ہر تیسرے چوتھے دن ملاقات ہوتی ہے، مسلم اوٹ لک کا ایک پرچہ بھیجتا ہوں جس میں ایک میرا مضمون ہے۔ وفد خلافت کے خرچ سے یہ پرچہ یہاں نکل رہاہے، وفد کی پوری روداد اور مضامین ا س میں چھپتےہیں، پچھلے ہفتہ ورد شکم کا مشہور ومعروف دورہ پڑ گیا تھا، اس لیے کسی کو خط نہ لکھ سکا۔ والسلام ۱۶؀ لندن، ۲۴مارچ ۱۹۲۰ایک بجے رات برادرعزیز، السلام علیکم م۔ ع کل جمعرات ڈاک کا دن ہے، خیال تھا کہ کل ہی مفصل خط آپ کو لکھوں گا لیکن شام کو ڈاکتر آرنلڈ [1] اور ان سے کل ۱۰بجے انڈیا آفِس لائبریری دیکھنے کا وعدہ ہوا، اس لیے کل مجھے فرصت نہ ہوگی، اس وقت ابھی نیشنل لیبرل کلب سے واپس آرہاہوں، آپ کے ہم وطن احسان الرحمٰن قدوائی بیرسٹر ہو کر واپس جارہے ہیں، ا س کلب میں اُن کے احباب نے ان کوالوداع کہا، ( لندن میں یہی ایک معزز کلب ہے جوہندوستانیوں کوقبول کرتاہے ) اس وقت گھڑی میں ۱۲بج چکے ہیں لیکن ابھی تک بستر کا مُنہ دیکھنا نصیب نہ ہوا، ا ور یہ کوئی آج کا نیا واقعہ نہیں۔ جب سے ہندوستان کیااعظم گڑھ چھوڑا ہے رات کے دوبجے سے پیش تر سونا نصیب نہیں ہوا۔ آپ تصور کرسکتےہیں کہ وہ شخص جو اعظم گڑھ میں شبلی منزل، ایک مقام میں میز کے سامنے یا آرام کرسی پر دن بھر پڑا رہتاتھا اورا س کو باہر جانا اس لیے بار تھاکہ کپڑے پہننے پڑیں گے، اب اس کو مجبوراً اس طرح پابند ہونا پڑا ہے کہ نماز صبح کے بعد جوسوٹ بوٹ سے آراستہ ہوکر بیٹھتا ہے تواسی طرح اکڑ ااکڑا رات کو۲بجے جاکر اعظم گڑھ والے کپڑے پہنتا ہے۔
[1] علی گڑھ کے مشہور پروفیسر اور مولانا شبلی کے دوست