کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 46
معاملہ کی بات یہ ہے کہ ۱۹کو شام کے وقت مسٹر لائڈجارج نے ایوان ِ وزارت میں وفد سےملاقات کی، عربی اور فارسی کے یورپین عالم بھی بُلاکر بٹھائے گئے، ڈیڑھ گھنٹے تک ملاقات رہی۔ محمد علی سید حسین صاحبان نےنہایت خوبی سے اپنے مطالبات پیش کئے، لائڈجارج صاحب نے جوابی تقریر فرمائی، جس کوسوال سے کوئی تعلق نہ تھا، ہمارے دلائل پر ایک حرف کچھ نہ بولے، فرمایا توفرمایاکہ ”سلف ڈٹرمینشن “کا اصول عیسائی اور مسلمان سب حکومتوں کےلیے برابرہے، تھریس میں یونانی زیادہ ہیں اس لیے وہ اس کے مستحق ہیں، اورسمرنا میں گومسلمان زیادہ ہیں لیکن وہ یونانی النسل ہیں، اس لیے اس کابھی یونان ہی مستحق ہے، ”یونانی مسلمان کی نئی مخلوق شاید”ہندوستان مسلمان کی صورت“ آپ کےملک میں بھی موجود ہے۔
گذشتہ اتوار کو ہم ووکنگ گئے، اطراف سے اور ہندی وترکی وانگریز مسلمان جمع ہوگئے تھے خاصا مجمع تھا، ظہر کا کھانا( لنچ ) ہوا، اس کے بعد میں نےنماز پڑھائی، محمد علی وسید حسین اور پروفیسر مصطفیٰ لیون ایک انگریز مسلمان نے تقریر کی، گمان ہے کہ یہ مصطفیٰ لیون وہی صاحب ہیں جوپہلے لیور پول کے مشہور شیخ عبداللہ کو بئلیم تھے، و وکنگ مشن کی نسبت اتناہی کہنا مناسب ہے کہ اس کفرستان میں وہ اسلام کا نام لیوا تو ہے لیکن کام اس جوش سے اب نہیں ہوتا جس جوش سے اس کا آغاز کیا گیا تھا ووکنگ میں محمد علی صاحب کی تقریر کا خلاصہ نامہ نگاروں نے اخبارات میں اس قدر ناتمام بھیجاکہ اکثر اخباروں نے اس سرخی سے اس خلاصہ کو شائع کیاکہ ”محمدعلی کی تہدید انگلینڈکو“ دوسرے دن انہوں نے اس کی تصحیح کےلیے اپناخط چھپوایا۔
۲۲/ کی شب کو ایسکس ہال میں یہاں کی تمام اسلامی وعثمانی مجلسوں کا ایک متفقہ جلسہ ہوا، انگریز اور ہندوستانی دونوں جمع تھے، اچھی تقریریں ہوئیں، گو میں اب کچھ انگریزی میں بول سکتاہوں، مگر رائے یہ ہوئی کہ میں اردومیں ہی بولوں۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا ترجمہ انگریزی میں کردیاجائے، یہ زیادہ مؤثر ہوگا، چنانچہ ایساہی ہو ا۔