کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 43
شریف اور نیک دل معلوم ہوئے، یہاں کی انگریز اور مسلمان انجمنیں جس قدر ہماری ہیں وہ سب مِل کر ایک جلسہ کرنے والی ہیں، ا س جلسہ کی صدارت کی ان سے خواہش ظاہر کی، جواب میں کہاکہ ”مجھے بذات خود آپ کے دعوؤں سے تمام تر ہمدردی ہے لیکن میں سرکاری حیثیت رکھتاہوں، اس لیے صدارت نہیں کرسکتا“اصرار پر وعدہ کیاکہ پھر غور کر کے جواب دوں گا۔
آج۶بجے شام کو ہوس آف کامنس میں لیبر ممبروں نےملنے کا موقع دیاتھا، وہیں سے واپس آکر یہ خط لکھ رہاہوں، گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ملاقات رہی ‘تمام مباحث اور مطالبات ان کو سمجھائے، کل شام کو بھی ۶بجے برٹش کانگریس کمیٹی کا جلسہ ہاؤس آف کامنس میں تھا، ہم لوگ بھی گئے تھے، کمانڈرکنوار تھی ممبر پارلیمنٹ سے ملاقات ہوئی، ا ور اپنے مطالبات اس کے سامنے پیش کئے، جواب میں فرمایاکہ ”فلاں صوبہ فرانس کو دیاگیا، فلاں اٹلی کوملاہے، فلاں امیر فیصل کے ہاتھ میں دیاگیاہے۔ “
مسٹر محمدعلی نے نہایت متانت سے کہاکہ ”پھر ہندوستان کس کے پاس جائے گا۔ “ اس پرتمام ہندوستانی حاضرین کا تبسّم اور ممبرصاحب کی خاموش شرمندگی قابل دید تھی۔
پروفیسر براؤن نہایت شریف آدمی ہیں۔ روزبروز ان کی شرافت کا سِکّہ ہم پر بیٹھتاجاتاہے، برٹش میوزیم کے کتب خانے کے لیے اپنےا یک شاگرد اڈورس کوجواس کے مہتمم ہیں میرے لیے نامۂ تعارف لکھاہے، یہاں کی مشرقی کتابوں کے دکاندارسے میرا تعارف کرایاہے۔ اپنی تصنیفات کی فہرست بھیجی ہے کہ جوپسند ہوں وہ آپ کی آمد لندن کی یادگار کے طور پر پیش کروں، ملاقات کےلیے باصراربلایاہے، مسلمانوں کی قسمت پر متاسف ہیں، ا ور اپنے ملک کے ارباب سیاست سے سخت آزردہ ہیں۔
مسلسل جنگ نے تمام یورپ کو تھکادیاہے، بجز مدبرین ممالک مزید خونریزی کاکوئی یہاں خواہاں نہیں، اشخاص سے گزرکر انجمنوں تک نوبت پہنچی ہے اوراس غرض