کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 42
موقع دیا ہے۔ یہاں کی حالت پر جہاں تک غور کیامعلوم ہوا کہ ہر شے تجارت ہے، پالیٹکس بھی تجارت ہے، اخبارات اور مضمون نگاروں پر جو زرپاشی کرے گا وہ عوام کو بھی اپنی مٹھی میں لے لے گا، یونانیوں اور ارمینیوں نے بےحد روپیہ چھینٹاہے۔ مستشرقین سے خط وکتابت کررہاہوں، پروفیسر براؤن اور مارگولیوتھ دونوں کےخط آئے ہیں، ا ول الذکر شریف اور آخر الذکر ”پولیٹیکل “اور ترکوں کا کیابلکہ مسلمانوں ہی کا سخت دشمن ہے۔
۱۴ لندن، ۱۷مارچ ۱۹۲۰ء۲بجے رات
م‘ع برادر عزیز، سلام محبّت
ہر ہفتہ کی جمعرات کو یہاں سے ہندوستان کی ڈاک روانہ ہوتی ہے اور تقریباً منگل کو ہرہفتہ یہاں ہندوستان کی ڈاک بنتی ہے۔ میں تو ہر ہفتہ جمعرات کو ۶بجے شام تک خطوط لکھ کر ڈاک میں ڈال دیتاہوں، ۶بجے کےبعد خط کےلیے چھ گونہ ٹکٹ لگاناپڑتاہے، گزشتہ ہفتہ میں آپ کا پہلا خط ملاتھا، لیکن اس ہفتے انتظار شدید کی تکلیف اٹھائی، مگر آپ کا کوئی خط نہ ملا، آپ بلاتوقف ہرہفتہ خط لکھ کر ڈال دیا کریں، تاکہ مسلسل ہفتہ وارخط مل سکے۔
شاید پچھلی ڈاک میں مسٹرایسکوتھ کی ملاقات کاحال لکھ چکاہوں، مگر میں نے خود اپنا فقرہ جو ان سے کہا، آپ کونہیں لکھا، چلتے ہوئے جب انہوں نے رُخصت کےلیےہاتھ ملائے، میں نے کہا ”عیسائیت تواپنی حمایت کےلیے بیسیوں حامی دین سلاطین رکھتی ہے، کیااسلام کو ایک حامیٔ دین سلطان کی بھی اجازت نہ ملے گی۔ “ میرے پاس انگیزفقرہ کاجواب ظالم نے صرف ایک تبسم سےدیا۔
اس ہفتہ میں پارلیمنٹ کے بعض ممبروں سے ملاقاتیں ہوئیں، کل شام کولارڈ اسلنگٹن (سابق انڈر سکریٹری گورنمنٹ آف انڈیا) ملے، بیچارے نہایت