کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 38
دوسرے ہی دن جس طرح بنابھاگ کر انگلینڈ پہنچے، اسٹیشن سے سیدھے ہوس میں پہنچے پیرس سے تاردےدیاگیا تھااور ہمارے لئے ممتاز مہمانوں کی گیلری میں نشست کا انتظام کردیا گیاتھا، چنانچہ ہم لوگ اس وقت پہنچے جب آدھا مناظرہ ختم ہوچکاتھا، تمام ممبروں کی تقریریں تعصب سے لبریز تھیں، ہم مسلمانوں کو توتعصب پر طعنہ دیاجاتاہے، مگر یہ کیاچیز ہے جوتمام یورپ میں نظر آرہی ہے۔ روزانہ مشہور اخباروں کے نامہ نگار ملاقات کوآتے ہیں اور ہمارے مکالمہ وپیغام کوشائع کررہے ہیں، پرسوں شب کوپروفیسر ارنلڈ ملنےآئے ہیں، خاص طور سےملا اور دارالمصنفین اور سیرت کاتذکرہ کیا اور دلچسپی لی، ا نڈیا آفس اور برٹش میوزیم کے کتب خانوں کو دکھانے کاوعدہ کیا، کل شب کومسٹر فشر نے بحیثیت قائم مقام وزیر ہند ( مانٹیگو صاحب آج کل نہیں ہیں ) وفد کو باریاب کیا، مسٹر محمدعلی اور سیدحسین صاحب نے اپنے مطالبات نہایت دلیری اور صفائی سے پیش کیے۔ پھر میری طرف دیکھا میں نے مسئلہ خلافت اور مقامات مقدسہ کی مذہبی حیثیت ظاہر کرنے کی خاطر ان سے کہاکہ میں کوئی پولیٹیکل آدمی نہیں، مذہبی اور علمی آدمی ہوں، ا ور علماکی جماعت کا قائم مقام ہوں، میرا اس وفدمیں شریک ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ ہم جن مطالبات کو پیش کرتے ہیں وہ سراسرمذہبی ہیں، فشر صاحب بڑے غور سے ایک ایک لفظ کو سُن رہےتھے اور پھر نہایت متانت اور خندہ جبینی کے ساتھ جواب دیاکہ ہم حتی الامکان مسلمانان ہند کےجذبات کا ضرور خیال کریں گے۔ آج مورننگ پوسٹ میں ایک اطالین پروفیسر مشرقیات ( رومن یونیورسٹی ) کےحوالہ سے ”سلطان بحیثیت خلیفہ“ ایک مضمون شائع ہواہے، میں نے آج ہی اس کا جواب لکھاہے، دیکھئے کون سااخبار چھاپے، کم بخت کہتاہے کہ بغداد کی تباہی کے بعدسے خلافت دنیائے اسلام میں رہی نہیں، ”نیچرآف خلافت“ان کا ایک رسالہ ہے