کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 35
اور تمام ہندوستان کے اتفاق واتحاد عام اور اس کے اسباب کا تذکرہ کیا، اور موقع پاکر گاندھی جی کی مرتّبہ یادداشت متعلقہ مطالبات خلافت کے اقتباسات سنائے۔ مسٹر فشرپھرمیری طرف متوجہ ہوئے، میں نے خلافت اسلامیہ اور مقامات مقدسہ کی مذہبی حیثیت بتانے کو ان سے کہا کہ نہ میں پولیٹیکل آدمی ہوں اور نہ میں جن کا قائم مقام ہوں وہ پولیٹیکل ہیں، ہم لوگ خالص علمی و مذہبی خدمت کرنے والے ہیں، میرا اس وفد میں شریک ہوکر آناخود اس بات کی کُھلی شہادت ہےکہ ہم جس مقدمہ کو آپ کی عدالت میں پیش کررہےہیں وہ خالص مذہبی ہے۔ “ ابھی وزیر اعظم سےملاقات نہیں ہوئی۔ مسٹر فشر نے کہاوہ بہت مشغول ہیں، و ہ وفدسے ملنے کی پوری کوشش کریں گے مگر شاید جلسۂ صلح کےبعد ان کا شرف ملاقات بخشنا بیکار ہے، ہم لوگ اپنی ذاتی عزت یا بی کے لیے نہیں بلکہ عرض مطلب کے لیے ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ تعجب ہے کہ موسیو دینی زیلاس[1]صاحب توجب بھی چاہیں وزیر اعظم سے مل جائیں اور ہم مسلمانان ِ ہند کےقائم مقام ایک دفعہ بھی ان کے سامنے نہ جاسکیں۔ مسٹرفشرنے آرمینیاکےمظالم کاذکر کیا، مسٹر محمد علی نے کہا ان فرضی قصوں کوکون باور کرسکتاہے، اگر آپ حقیقت جانناچاہتےہیں تو مسلمانان ہند کا ایک کمیشن مقرر کیجیے اور ممکن ہوتو کسی انگریز جج کو ا س میں شامل کیجیے، اگر واقعی ترکوں کا قصور ہےتو ہم ان سے ہاتھ دھونے کوتیار ہیں۔ مسٹر فشر نے اپنی جوابی تقریر میں کہا کہ مسلماناںِ ہند اطمینان رکھیں کہ ترکوں کےساتھ صلح کرنے میں ہم ان کے جذبات مذہبی کو پورا لحاظ رکھیں گے، مگر مشکل یہ ہے کہ
[1] اس وقت کےٹرکی کےحریف یونان کےوزیراعظم