کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 34
بیان کئے گئےہیں۔ اخبارمیں روزانہ قتل عام کے تار چھپتےہیں، ہو س آف کامنس میں اکثر ممبروں کی تقریروں کا خلاصہ یہ تھا کہ ”چونکہ قسطنطنیہ میں بیٹھ کر ترک آرمینیا پر ظلم کرتے ہیں اس لیے قسطنطنیہ ان سے چھین لو، اخبارات میں اعلان شائع ہوئے ہیں کہ مظلوم وبے کس آرمینیوں کی حمایت کے لیے اپنے اپنے دائرہ کےممبران پارلیمنٹ کوتاردو، بہرحال ان مظلوم نماظالموں کاہر طرف جال پھیلا ہواہے، اس کو توڑناصرف کام اور روپیہ سے ہوسکتاہے، میں گواہی دیتاہوں کہ جس دن بلکہ جس وقت سے ہمارا وفد لندن اترا ہےبجز کام کے آرام نصیب نہیں ہواہے۔ اخبارات کے قائم مقاموں سےملاقات، آرمینی مضامین کے جوابات، لوگوں سے ملنا جُلنا، ا خبارات کو پڑھنا، مخالف مضمونوں کا جواب لکھنا، وزراء اور ممبروں سے خط وکتابت، پہلے سے جولوگ یہاں کام کررہے تھے ان سے مبادلۂ خیالات، مجلسوں اور انجمنوں میں شرکت ہمارے مشاغل ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ گذشتہ وفد کا نپور کی طرح جو ۱۹۱۳ء؁میں یہاں آیاتھا ہمارے ساتھ بے رخی نہیں برتی جاتی، بلکہ ہر اخبار اور ہرمجلس میں ہماری سننے اور ہم سےملنے کے لوگ آرزومندہیں۔ دوسری مارچ کووزیر ہندنے جوبالفعل عارضی طور سے مٹر فشر( قائم مقام مسٹر مانٹیگو) ہیں شام کو ایوان ہند میں ملنے کی دعوت دی، ہم شام کو ۶بجے انڈیا آفس پہنچے، آدھ گھنٹے کے انتظار کے بعد ملاقات ہوئی، ا یوان ہند کے انڈرسکریٹری اور پرائیوٹ سکریٹری موجود تھے، محمد علی اور سیّدحسین دونوں صاحبوں نے نہایت آزادی اور صفائی سے اپنے مطالبات اور مسلمانوں کےصحیح خیالات پیش کئے اور کہا کہ ”ہم کو انگریزی زبان میں کوئی ایسالفظ نہیں ملتا جوادب کے ساتھ تنبیہ پیش کرنے کا مفہوم ادا کرسکے جس کے اندر تہدید کا مفہوم نہ ہو، مسٹر محمدعلی نے زیادہ تر مذہبی نقطۂ نظر کو بیان کیا، سید حسین نے ہندوؤں کو شمول