کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 28
ہے، عزیزان دارالمصنفین کس حال میں ہیں، پچھلا خط جوعدن سے بھیجاتھا، پہنچا ہوگاجس میں معارف کے آئندہ ہرنمبر کی چار کاپیاں مانگی ہیں، سیرۃ ختم ہوئی یا نہیں، آپ کی تنہائی کا افسوس ہے۔ افسوس کہ مصر جانے کا انتظام نہ ہوسکا۔
۹ وینس، ۲۴فروری ۱۹۲۰ء
تسلیم !
سمندر کوطے کرکےہم نے جس شہر میں قدم رکھا ہےا س کا نقشہ پُشت پردرج ہے، و ینس کوآپ نے شکسپئیر کی عینک سے دیکھاہوگا، میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہوں، میری لال ٹوپی، پیروجواں سخت ولطیف ہرجنس کی نگاہوں کامرکز ہے، خدا نظرِ بدسےبچائے۔
آج پیرس کا عزم ہے، یہاں کےدواخباروں کے نامہ نگاروں نےملاقاتیں کیں، ا ور وفدخلافت کا حال آج شائع کیا، ”وینس دی گزیٹا“نے ذرا تفصیل سےکام لیا ہے، معارف یادرہے۔ خداحافظ۔
۱۰ مسرزتھامس کک اینڈ سنس لڈگیٹ سرکس
لندن۔ ۳ مارچ ۱۹۲۰لندن
عم محترم دام کرمہ سلام مسنون
یہ تومجھے امیدنہیں کہ آپ نے اب تک مجھے کوئی خط نہیں لکھا ہوگا، لیکن یہاں پہنچنےپرہندوستان کی پہلی ڈاک جوملی ہمیں دیسنہ [1]کاکوئی خط نہ تھا، نہ کوئی اعظم گڈھ کا ‘البتہ بھائی داؤد [2]صاحب کا پہلاخط ملا اور دوسراخط ملا مسٹرمہدی حسن کا جس میں صرف ایک ظریفانہ شعر تھا؎[3]
[1] کاتب کےوطن کا نام جوضلع پٹنہ کےمشرق واقع ہے۔
[2] کاتب کے بڑے چچازادبھائی جن کا افسوس ہے کہ ۱۹۴۱ءمیں انتقال ہوچکا۱۲۔
[3] یعنی مشہور مرحوم انشاء پردازمہدی افادی الاقتصادی صاحبِ افادات مہدی ۱۲۔