کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 25
کوٹھہرے گا، ا ور وہ بھی چند گھنٹوں کےلیے، و رنہ اس کی زیارت سے بھی مشرف ہوسکتے سیّدحسین صاحب آدمی پُرزور، بڑے وسیع المطالعہ ہیں، مگر ان کو غصْہ بھی جلد جلدآجاتاہے۔ پُرسان حال کوسلام۔ ۷؀ از جہاز یالنگر، پورٹ سعید، ۱۴فروری ۱۹۲۰ٔء ؁ عم محترم السلام علیکم جی تو یہ چاہتا ہے کہ ا س سفرکا ایک ایک جزئی واقعہ آپ کو خط میں لکھوں، لیکن تنگئِ دامن کا گلہ ہے اور کثرت حُسن شِکوہ ہے، عدن سے جو رقعہ لکھاپہنچا ہوگا، عدن کے بعدجہاز نےمصوّع ساحل افریقہ ( اریٹریامقبوضۂ اٹلی) میں لنگرڈالا، یہ عرب حبشی آبادی ہے، اس کا دارالحکومت اسمارہ ہے، اٹلی کےزیر حکومت ہے، ۵ بجے کےقریب یہاں کے ساحل پر ہم اترے، یہ عمر کا پہلاموقع ہےکہ ملک سمندر کےعلاوہ ایک ا ور مُلک بلکہ ایک براعظم ( افریقہ ) اورایک انگریزی حکومت سے باہر ایک دوسری حکومت کی سرزمین پرقدم رکھا، لوگ ڈراتے تھے کہ بحر احمر( ریڈسی ) میں یوں گرمی ہے، یوں تمازت ہے لیکن خدا کا کرنا دیکھیے کہ یہاں سینکڑوں میل تک یعنی یہاں تک کہ کل شام کو سوئیزمیں قدم رکھیں گے، لیکن گرمی کا نام و نشان نہیں، سردی بلکہ جاڑاتک موجود ہے، لوگ کہتےہیں کہ یہ بالکل اتفاقی اور عجیب بات ہے۔ مصوّع میں ہندوستانی آبادی کودیکھ کرتعجب ہوا، گجرات، کاٹھیاوار اور کچَھ کے ہندوبنیا اور بوہرے، خوجے مسلمان یہاں تاجرہیں، ا ردوکی فرماں روائی دیکھئے کہ افریقہ کے ریگستان تک وسیع ہے، اتفاقاً ہندوستانی بھائیوں سےملاقات ہوگئی، انہوں نے اس قدر آؤبھگت، خاطرداری اور مہمان داری کی کہ اظہار مشکل ہے، دوسرے جہاز سے لاجپت رائےا ور مشیر حسین قدوائی اُترے، خلافت کےمتعلق باتیں ہوئیں، مشیر حسین نے حقیقت میں بڑاکام کیا، ا ور وہ کہتے تھے کہ سرآغاخان کی کوشِش بھی