کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 224
بہرحال جنگ کا سیاہ ابر جب چِھٹ گیا تو ہمیں امید تھی کہ اب صلح وامن کی ایسی روشنی پھیلے گی جس سے یہ تاریکیاں دُور ہوجائیں گی لیکن جب پردہ چاک ہوا تو مطلع اور زیادہ تاریک نظر آنے لگا۔
ٹؔرکی اور اؔیران ہمارے تمدن، ہمارے علوم، ہمارے رسوم وآداب اور ہمارے بزرگوں کے متروکہ ذخیرہ کے محافظ تھے، اب جب کہ زمانے کے ہاتھوں نے ان کے ساتھ کھیلنا بھی شروع کیا اور یہ دونوں قریب تھا کہ ایک افسانہ بن کر رہ جائیں تو دفعتاً ہم اپنی گہری نیند سے جاگے اور عزم کیا کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اور اتنا چیخیں کہ ظالموں کو معلوم ہوجائے کہ اب مظلوم بھی کروٹ بدل رہے ہیں۔ آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ ہم انگلستان اور فرانس یا اور دوسری حکومتوں کے ان مساعی جمیلہ سے جو وہ یورپ میں تمدن اور علوم وفنون کے پھیلانے میں صَرف کررہے ہیں ناواقف نہیں ہیں، لیکن مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب اور ہر دین اور ملّت کے لیے ایک الگ تمدن اور مخصوص آداب ِ معاشرت ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی یہ پسند نہ کرے گا کہ اپنے دین کو دوسرے دین سے، اپنے تمدن کو دوسرے تمدن سے، اپنے آدابِ معاشرت کو دوسرے آداب معاشرت سےا ور اپنی زبان کو دوسری زبان سے اور اپنے علوم کو دوسرے علوم ست بدل دے۔
كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ( قرآن) ” ہر جماعت جو کچھ اس کے پاس ہے اسی میں خوش ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ کو اسلام اور اہل اسلام کے ان زرین کارناموں پر پوری اطلاع ہے جو علوم کی ترقی اور تمدن کی ساخت اور آداب معاشرت کی تعمیر کے لیے اس سے ظہور میں آئے ہیں۔ پس یہ چیخ پکار اور گریہ وزاری ترکی وایران کی تباہی پر نہیں ہے بلکہ ہمارے آنسودنیا کی بڑی قوموں میں سے ایک بڑی قوم، دنیا کے بہترین تمدنوں میں سے ایک عمدہ تمدّن اور دنیا کے علوم و