کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 221
کرکے اوپرتلے تین چار بڑے بڑے حوض تیار کیے ہیں۔ جن میں علی الترتیب پانی جمع ہوتا ہے۔ اوپر کا پہلا حوض لبالب ہوگیا تو نالی کی راہ سے دوسرے میں پانی آگیا اس سے تیسرے میں پھر چوتھے میں۔ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ کس خوبصورتی مضبوطی اور انجنیئری سے یمن کے پُرانے باشندوں نے ان حوضوں کو تیار کیا تھا کہ ہزاروں برس گزرنے پر بھی اب تک وہ تازہ معلوم ہوتے ہیں۔ کلام پاک کی وہ آیت یاد آئی جس میں سؔبا کی عظمت اور ان کی تباہی کا حال بیان کیا گیا ہے۔ آپ یہ تصوّر کرکے بہت خوش ہوئے ہوں گے اس خشک ملک میں جہاں پانی کا ہمیشہ کال رہتا ہے گورنمنٹ نے ان حوضوں کو صاف کر کے پھر زمانۂ قدیم کی طرح باشندوں کے لیے آب ِ رحمت کا سامان کردیا ہے۔ یہ خُوشی دُرست ہے، صرف اس قدر معلوم ہونا اور باقی ہے کہ یہ آب رحمت بہت گراں بکتا ہے یعنی صرف پچاس ہزار روپے کے بدلے میں اس کا پانی گزشتہ سال نیلام ہوا تھا۔ عدن دیکھنے کی جتنی تمنّا تھی اس کو دیکھ کر اتنا ہی افسوس ہوا اور معلوم ہوا کہ ٹرکی کے سلاطین کی اوّلین غلطی کے مہلک نتائج کہاں تک پہنچے ہیں اور دیکھیے کہ کہاں تک پہنچیں، اور یہ سب ہندوستان کے صدقے میں ہوا۔ عدن کے بعد اب بمبئی ہے۔ ہر وقت اس کے ساحلوں کا انتظار ہے۔
۷۳ لندن، ۱۹۲۰ء
پروفیسر براؤن اور پروفیسر مارگولی اتھ کے نام [1]:۔
حضرۃ ا[2]لفاضِل، تحیۃ وسَلاماً
[1] میں نے لندن پہنچ کر حسب ذیل خط عربی زبان میں لکھ کر انگلستان کے ان دو مشہور فاضلوں کے نام بھیجے تھے، پروفیسر براؤن، لٹریری ہسٹری آف پریشیا کے مشہورمصنّف اور عربی وفارسی ادبیات کے ماہر تھے اور پروفیسر مارگولی اتھ محمد نام کتاب کے مصنف تھے اور عربی کے پروفیسر تھے ان دونوں کے جوابات مجھے موصول ہوئے تھے جوان کے شخصی اخلاق ومزاج کے مطابق تھے۔ پروفیسر براؤن کا جواب نہایت شریفانہ تھے۔ انہوں نے اپنی ان کوششوں کا حوالہ دیا تھا جو ایران کی آزادی کے لیے کی تھیں اور انگریزوں کی موجودہ سیاست سے اپنی ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ پروفیسر مارگولی اتھ کا جواب مختلف تھا۔ انہوں نے ترکوں کے مظالم کا حوالہ دے کر بوجوہ انگریزی پالیسی کی حمایت کی تھی۔
[2] یہ اس خط کا ترجمہ ہے جو پروفیسر براؤن کے نام تھا۔ اسی کے قریب قریب اس خط کی عبارت بھی تھی جو پروفیسر مارگولی اتھ کو لکھا تھا 12