کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 220
اور ترازو کے ساتھ نظر آئے۔ ایسا معلوم ہوا کہ یہ بھی ہندوستان ہی کا ٹکڑا ہے۔ تمام قطعۂ ارض پہاڑی ہے۔ شہر نہایت بدصورت اور بد نمامعلوم ہوتاہے۔ جنگ کے زمانے میں یہاں ریل بنائی گئی تھی۔ وہ چلتے ہوئے دیکھی، چھوٹی پٹڑی کی ریل شیخ عثمان تک گئی ہے۔ جدھر لہج واقع ہے۔ لہج کا شیخ جسے ’’سلطان لہج “کہتےہیں لڑائی میں انگریزوں کے ساتھ تھا اورا سی میں عربوں اور ترکوں کے ہاتھ مارا گیا۔ ا ب اس کا بیٹا ہے جو برٹش علم کے زیر سایہ حکمراں ہے۔ مجھ کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انگریز آہستہ آہستہ عرب کے اس سب سے زرخیر صوبہ پر قبضہ کرلیں گے۔ ا ور اسی کی یہ سب تیاریاں ہیں، گو ایک یمنی عرب نے جو ہمارا ہمسفر ہے، اس کی تردید کی اور کہا کہ یمنی عربوں کے پاس وسائل جنگ بہت زیادہ ہیں اور وہ ہر قسم کے آلاتِ حرب سے آراستہ ہیں مگر افسوس کہ ہمارے عرب بھائیوں کو اب تک معلوم نہ ہوا کہ جنگ کے علاوہ صلح کے ذریعہ سے بھی غیر ملک پر قبضہ ممکن ہے۔
ارؔض القرآن لکھتے وقت عدن کے آثارِ قدیمہ بھی تصورکی آنکھ سے نظر آئے تھے، اس کی گذشتہ تجارتی عظمت نگاہ کے سامنے تھی پہاڑی کے دامن میں ایک طرف کچھ آثار ہیں۔ اُن کے دیکھنے کو گئے۔ یہاں پانی نہایت کمیاب ہے۔
حمیرؔ اور سؔبا نے جو یمن کی سب سے قدیم متمدن قومیں تھیں بارش کے پانی کو روکنے کے لیے اور اس کو پینے اور زراعت کے کام میں لانے کے لیے بڑے بڑے سنگی بند اورحوض بنائے تھے۔ اسی قسم کے بنداور حوض عدن میں بھی تھے۔ یہ مدت سے ریت اور بالو میں دفن ہوگئے تھے۔ انگریزوں نے اب ان کو صاف کرایا ہے، ان کو جاکر دیکھا، پہاڑوں کے درّوں کو کاٹ کر نہایت ہوشیاری سے سُوراخوں اور دراڑوں کو مسالےسے بند کرکے، قدرتی نالوں کو دُرست