کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 219
۲۶ کی صبح کو مصوّع سے ہمارے جہاز نے لنگر اٹھایا اور ۲۷ کی دوپہر کو پریم میں کوئلہ لینے کو ٹھہرا۔ یہ جزیرہ بحرِ احمر کے اختتام اور بحر عرب کے دہانہ پرسواحل یمن کے مقابل واقع ہے۔ چھوٹے چھوٹے پہاڑی جزیرے ہیں جو گو آبادی کے قابل نہیں۔ لیکن تجارتی اور جنگی حیثیت سے نہایت باموقع ہیں۔ ”خانہ خالی رادیومی گیرد“ اب طبعی طور سے یہ انگریزی قبضہ میں ہیں اور کوئلہ کے کمپنی کے مرکز ہیں، سُنا کہ بعض جزیرے اس کمپنی کے ملک بھی ہیں۔ بہرحال آنے جانے والے جہازوں کو کوئلہ دے کر جو نفع یہاں پیدا ہوسکتا ہے اس کا تصوّر آپ کرسکتے ہیں، یہ حق کس کا ہے اور کس کو پہنچ رہاہے۔ چند گھنٹوں میں یہاں سے جہاز چلا تو دوسرے دن صبح کو عدن نظر آیا۔ یورپ جاتے ہوئے یہاں اترنے کے لیے رات کو دیر تک منتظر بیٹھے رہے تھے۔ مگر اجازت نہیں ملی تھی، وہی حسرت وآرزو اب بھی تھی۔ صبح کو پہنچے تھے اور ۱۲ بجے تک فرصت تھی۔ بڑے ذوق وشوق سے اُترے کہ کم از کم اس ارض اقدس کے ایک گوشے ہی کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو منوّر کریں۔ چھوٹی کشتی پر بیٹھ کر عدن کے ساحل پر آکر اترے۔ انگریزی گورنمنٹ کے ہندوستانی وصومالی نوکر نظر آئے جس نے پاسپورٹ دیکھا۔ و ہ بنگالی معلوم ہوتا تھا۔ باہر نکلے تو کرایہ کے موٹروں کی بڑی تعداد نظر آئی، معلوم ہوتا ہے کہ زمانۂ جنگ میں یہ موٹر برسرِ کارہوں گے اور اب کرایہ پر چلتے ہیں یا ہندوستانی تاجر کرایہ پر چلاتے ہیں۔ ذہن میں نقشہ تھا کہ ساحل پر قدم رکھتے ہی بڑی بڑی عباؤں میں ہم کو عرب نظر آئیں گے۔ لیکن طواہی یعنی ساحل کی آبادی سے لے کر اصل شہرعدن تک میں ہم کو خاص عرب صورت کوئی نظر نہ آئی۔ یا ہندوستانی نظر آئے یا صومالی۔ ہندوستان کے گجراتی ہندو بھائی اور ہندو بنیادہی اپنی دھوتی