کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 218
اور ایک عربی کتبہ لکھ کر دیا جو پتھر پر مسلمانان ِ ہند کا نام کندہ کرکے فرش پر لگادیا جائے گا۔ یہاں سےفارغ ہوکر ہم یہاں کے ایک عرب تاجر سے ملنے گئے جو یہاں کے ممتاز دولت مند ہیں اور موتیوں کی تجارت کرتے ہیں، پورا نام تو یاد نہیں مگر شیخ ہندی یاد ہے۔ ان سے خلافت اور بلاد مقدسہ کے مسئلوں پر گفتگو کی اور یہ طے پایا کہ مّصَوَّع کےمسلمانوں کی طرف سے ایک تار اٹلی کو روانہ کیا جائے جس میں وہ اٹلی کی حکومت کو اطلاع کریں کہ حکومت اٹلی نے ہمارے مسلمان بھائیوں کے ہندی وفد خلافت کے ساتھ جو دوستانہ برتاؤ کیا ہے ہم اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ رات کو جب فارغ ہوکر ہم گھر آگئے تو ہم سے ملنے کے لیے دو عرب یمنی نوجوان آئے، ان میں سے ایک نے ٹرکی کے مدرسہ رشیدیہ یمن میں تعلیم پائی تھی مشکل سے ان کی عمر بیس برس کی ہوگی۔ انہوں نے ہم سے جو باتیں کی جو سوالات پوچھے جو اطلاعات دیں ان کو سن کر میں محو حیرت رہ گیا کہ کیا میں خواب دیکھ رہا ہوں یا واقعاً سر زمین کے دو نہالوں سے گفتگو کررہاہوں، سیاحت حاضرہ کی داستان کا کوئی حرف ایسا نہ تھا جس سے وہ کوشش آشنا نہ ہوں، مصر کے عربی اخبارات ہر ہفتہ منگواتے ہیں۔ اور جب تک ان کو پڑھ نہیں لیتے کھانا نہیں کھاتے، ان کے دلوں میں یہ اُمنگ تھی کہ وہ کسی اسلامی فوج کے سرعسکر ہوتے، ایک نے بیان کیا کہ وہ شام کی ترکی فوج میں مجاہد بھی رہے ہیں اور اب اناطولیہ چلے جانے کے آرزو مند ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ یمن کا ہر بچہ دولت عثمانیہ کا خیر خواہ ہے۔ اور اس کے سپاہیوں کے پاؤں کے نیچے کی خاک اپنے سر پر رکھنے کو تیار ہے، یمن کسی حال میں ٹرکی سے جدا نہ ہوگا۔