کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 217
بڑے مسلمان تاجر ہیں پچاس ساٹھ کے قریب ہندو مسلمان جو زیادہ تر گجرات کے تھے جمع ہوگئے، چائے اور شربت کی دعوت کے بعد ایک مختصر جلسہ مرتب ہوا جس میں پہلے ایک ہندوستانی گجراتی نوجوان نے ہمار اخیر مقدمن کیا محمد علی صاحب نے گجراتی میں ان کا جواب دیا۔ یہاں ایک ذات بزرگ سے ملاقات ہوئی جو اپنے کو ٹرکی کی رعایا اور البانی بتاتے ہیں، جنینا( البانیہ زیر حکومت یونان) کے رہنے والے ہیں عربی، جرمنی، انگریزی اور ترکی جانتے ہیں جنگ کے زمانے میں انگریزوں کی طرف سے سوڈان میں سنسر تھے۔ ہم لوگوں سے ملنے آئے، بڑی محبت کی باتیں کرتے رہے، وفد کے حالات سے باخبر تھے، بہت کچھ اظہارِ شوق کیا۔ بعدکومعلوم ہوا کہ وہ یونانی تھے۔ بہرحال مغرب کی نماز ہم نے یہاں کی ایک مسجد میں ادا کی۔ یہاں کی عرب آبادی کو پہلے سے اطلاع ہوگئی تھی۔ ہمارے افریقی عرب اور حبشی وصُومالی مسلمان جمع تھے۔ نماز کے بعد میں نے عربی میں ان کے سامنے خلافت کے مسئلہ اور موجودہ اسلامی مصائب پر تقریر کی، ا ور اٹلی کی گورنمنٹ کا اور اس کی مہربانیوں کا شکریہ کیا اور ان کو بتایا کہ کیونکر اس مسئلہ میں وہ اسلام کی مدد کرسکتے ہیں، حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی تقریب کا کافی موقع تھا۔ مجھےیقین نہ تھا کہ ان سیاہ رنگوں میں اسلامی مصائب پر حسرت وافسوس کا وجدانی نور چمکتا نظر آئے گا، مگر تقریر کے دوران میں ان کے کلماتِ تحسین کے اظہار سے معلوم ہوا کہ سیاہ غلاف کے اند رتلوار کیسی چمکتی ہے، مسجد کا فرش صرف سنگریزوں کا تھا۔ پختہ نہ تھا، محمد علی صاحب نے اس وابستگی کےاظہار کے لیے جو مسلمانان عالم کو باہم ہے اور نیز اس لیے کہ مسلمانان ِ ہند کی یادگار یہاں کے مزرعۂ قلوب میں ہمیشہ قائم رہے، ہندوستانی تاجروں کے ذریعہ سے وفد کی طرف سے ۱۵ پونڈ اس کے پختہ فرش کے لیے دیے۔