کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 215
یہ نہایت بدنما معلوم ہوتا تھا۔ ا تفاق سے ایک دوکان پر دو جدید طرز کی برقعہ پوش خاتون بھی دیکھیں، اُن کے برقعوں کا نقشہ یہ تھا کہ گویا ایک سِلی ہوئی سیاہ چادر سر سے پاؤں تک تھی، مُنہ کے سامنے سے سینہ کھلا ہوا، اس پر ایک سپید جالی پڑی ہوئی جس سے کسی قدر مُنہ اور سینہ کا اُبھار صاف نظر آتا تھا۔ دونوں ہاتھ جو زیور سے بالکل خالی تھے دونوں طرف برقعے سے نکلے تھے۔ پاؤں میں اونچی ایڑی کے یورپین بوٹ تھے۔ دلّی کا جدید برقع میرے خیال میں جواب تعلیم یافتہ ہندی خواتین پہننے لگی ہیں۔ وہ اس سے کہیں زیادہ خوبصورت اور پردہ دار ہے۔ پورٹ سعید سے ایک نوجوان ایرانی مسلمان جس کا وطن شیراز ہے مع خاندان کے جہاز پر سوار ہوا۔ اور بھی کئی شامی عرب سوار ہوئے۔ ہماری آئندہ دلچسپی کے لیے یہ بہت کافی تھے۔ شیرازی نوجوان سے بشوق ملاقات کی۔ معلوم ہوا کہ یہ عالم ہیں، عربی عمدہ بولتے ہیں اورفارسی تو مادری زبان ہی ہے۔ تعارف کا آغاز عربی سے ہوا لیکن جب معلوم ہوا کہ ایرانی ہیں تو اب فارسی میں گفتگو ہوتی ہے۔ کتابوں کے مطالعے کے شوقین ہیں ان کے ساتھ بھی کچھ کتابیں تھیں۔ میں نے بھی پیرس سے عربی کی کچھ کتابیں خریدی تھیں وہ ساتھ تھیں، کتابوں کا مبادلہ ہوا۔ ان کے ساتھ فارسی کی ایک نئی تصنیف ”مسالک الحسنین “ تھی، ایک جدید تعلیم یافتہ ایرانی نے اس میں موجودہ ایران کی سیاسی، انتظامی، اخلاقی اور معاشرتی حالات کا خاکہ اُڑایاہے۔ کئی دن تک اس کا مطالعہ کیا۔ حالات پڑھ کر بہت افسوس ہوا۔ ہمارے ایرانی دوست ایک سال ہوا کہ شیراز سے زیارت وحج کی غرض سے عراق وشام ہوکر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ گئے تھے، وہاں سے واپس ہو کر مصر آئے، کچھ دن وہاں قیام کیا پھر شام وفلسطین آکر رہے۔ دمشق وبیت المقدس میں بھی قیام پذیر رہے۔