کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 214
جواخلاق ہر کہ ومہ پر نمایاں ہورہے تھے۔ ا ن سے اندازہ ہوتا تھا کہ آئندہ بیت المقدس کا تمدن کس نوع کا ہوگا، بہرحال پورٹ سعید پہنچ کر یہ قافلہ اترگیا، یہاں سے وہ فلسطین جائے گا۔ مدّت کے بعد مشرق کی سر زمین نظر آئی تھی۔ چند گھنٹے ہمارا جہاز یہاں پورٹ سعید ٹھہرنے والا تھا، اس لیے پاسپورٹ دکھا کر جلدی جلدی اترے کہ کسی مصری ہوٹل میں جاکر آج مشرقی مذاق کا کھانا کھائیں گے، گھنٹہ دو گھنٹہ شہر وبازار میں پھرے۔ ہندوستانی گجراتی تاجر یہاں کئی ہیں۔ ہندی بازار بھی یہاں بنا ہوا ہے، وہاں گئے۔ ہندوستانی بھائیوں سے ملے، مصر اس لڑائی کے بعد ایک عجیب مصر ہوگیا ہے۔ سوائے استقلال اور تمنائے آزادی بچہ بچہ کے سر میں ہے، مصری وفد لندن سے جو شرائط معاہدہ لے کر آیاہے ان پر جگہ بحث مباحثہ جاری ہے۔ جس دن ہم پورٹ سعید پہنچے اس دن سُنا کہ مصر کی قومی مجلس شرائط کے فیصلے کے لیے بیٹھی ہے۔ قاہرہ کی مجلس شرائط کے قبول کرنے کو تیار ہے لیکن اسکندریہ کی مجلس کو ان سے سراسر انکار ہے۔ بازار میں کچھ چیزیں خریدیں، جس دکان پر جاکر کھڑے ہوئے، احرارورہبر ان مصر کے مرقعے دیواروں پر اور استقلال وآزادی کے کلمات زبانوں پر دیکھے، اسی کے ساتھ وفد خلافت کا نام اور اس کے کام سے بھی بہت آشنا معلوم ہوئے جس نے جانا شکریہ وتحسین کا کلمہ زبان پر لایا۔ مصری خواتین کے نئےاور پُرانے طرز کے برقعے بھی دیکھے، برقعہ پوش عورتیں آتی جاتی نظر آتی تھیں، پُرانے طرز کا برقع بالکل پُرانے ہندوستانی طرز کا تھا۔ ناک پر ایک گول لکڑی کی ریل سی تھی، ا س کے سوراخ میں ایک ڈور ا لگا ہوا تھا، جس کے ذریعہ سے چہرہ کا پردہ نیچے گرایا یا اوپر اٹھایا جاتا تھا